Maktaba Wahhabi

261 - 545
(فَلَهُ أَوْكَسُهُمَا أَوِ الرِّبَا)لہٰذا یہ کہنا غلط ہے کہ اس حدیث کے تحت مندرجہ بالا اعتراض نمبر3 والی صورت آتی ہے، دیکھا جائے تو نقد اور اُدھار کی قیمتوں کا فرق اس میں داخل نہیں بلکہ اصل مقصود ہی وہ بیع ہے جس میں دو قیمتیں ہوتی ہیں جن میں ایک کم اور ایک زیادہ ہوتی ہے جس میں کم والی کو حلال اور زیادہ والی کو رباء کا نام دیا گیا، چاہے یہ دو قیمتیں اُدھار کے سبب ہوں یا کسی اور وجہ سے وہ بحکم شارح علیہ السلام حرام ہیں الایہ کہ کم تر قیمت کو اختیار کیا جائے۔ اعتراض نمبر4: (إِلا أَنْ تَكُونَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِنْكُمْ) کے تحت یہ مسئلہ نکالا جاتا ہے کہ اگر فریقین کسی بیع پر راضی ہوں تو وہ جائز ہے لہٰذا قسطوں والی اُدھار بیع میں دونوں زیادہ قیمت پر راضی ہوتے ہیں تبھی سودا ہوتا ہے دونوں میں سے کسی پر جبر نہیں ہوتا۔ جواب: یاد رہے کہ کبھی بھی رضا مندی حرام کو حلال کرنے کا باعث نہیں بنتی۔ 1۔ جس طرح مسلمانوں کے لیے ذبح کے وقت تکبیر کا پڑھنا لازمی شرط ہے جس سے یہ نتیجہ بھی نکالا جا سکتا ہے کہ ذبیحہ تكبيرہی سے حلال ہوتا ہے لیکن اس سے یہ نتیجہ نہیں نکالا جا سکتا کہ کتے کو بھی تکبیر پڑھ کر ذبح کریں تو وہ حلال ہو جائےگا یعنی تکبیر بھی حلال جانورہی کو حلال کرتی ہے حرام کو وہ بھی حلال نہیں کر سکتی۔ 2۔اگر فریقین کی رضا مندی کو حلت و حرمت کا ماخذ قراردیا جائے تو پھر تو زنا بھی صرف وہ حرام کہلائے گا جو بالجبرہواور جو زنا باہمی معاشقے کا نتیجہ ہو اُسے تو فریقین کی رضا مندی دھوڈالے گی۔
Flag Counter