Maktaba Wahhabi

405 - 545
﴿يَضْرِبُونَ فِي الْأَرْضِ يَبْتَغُونَ مِنْ فَضْلِ اللّٰهِ[1] ”زمین میں چل پھر کر (تجارتی سفر کر کے) اللہ جل جلالہ کے فضل سے روزی تلاش کرتے ہیں۔“ امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ نے مضاربت کی تشریح اس طرح کی ہے۔ "وَ المُضَارَبَةً هِيَ مأْخُوْذَةُ مِنْ الضَّرْبِ فِي الْأرضِ :وَهُوَ السَّفَرُ وَالْمَشْيُ،وَالْعَامِلُ لِأَنَّ الْعَامِلَ يَخْتَصُّ بِالضَّرْبِ فِي الْأرضِ."[2] ”مضاربت: یہ زمین میں سفر سے ماخوذ ہے اور یہ سفر، بھاگ دوڑ اورکام کاج ہے، اس لیے کہ کام کرنے والا زمین میں بھاگ دوڑ اور سفر کرتا ہے۔“ مضاربہ میں نفع کی تقسیم کا شرعی تناسب؟ اگرچہ قرائن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں صاحب سرمایہ اور محنت کرنے والے میں نفع برابر تقسیم ہوتا تھا، مزارعت بھی مضاربت ہی کی طرح ہے، فرق صرف یہ ہے کہ مزارعت میں سرمایہ کی جگہ زمین ہوتی ہے، خواہ وہ کھیت کی صورت میں ہو یا باغ کی صورت میں ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مہاجرین و انصار میں مؤاخات کا سلسلہ قائم تو مہاجرین کے معاش کا مسئلہ یوں حل فرمایا کہ باغات انصار کے ہیں اور محنت مہاجرین کریں گے اور پیداوار میں برابر کے شریک ہوں گے۔[3]
Flag Counter