Maktaba Wahhabi

439 - 545
علامہ ابن عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ کی رائے علامہ ابن عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ درالمختار میں فرماتے ہیں: "وَلَوْ بَاعَ أَحَدُ الشَّرِيْكَيْنِ فِي الْبِنَاءِ حِصَّتَهُ لأَجْنَِبِيٍّ لاَ يَجُوْزُ، وَلِشَرِيْكِهِ جَازَ."[1] ”اگر دو شریکوں میں سے ایک شریک کسی عمارت میں اپنا حصہ اجنبی (غیر شریک) کو فروخت کرے تو ناجائز ہے البتہ اگر اپنے شریک کو فروخت کرے تو جائز ہے۔“ چونکہ یہاں پر تمویلی ادارہ اپنے حصے اپنے شریک کو فروخت کر رہا ہے اور اگر مشاع شئے اپنے شریک کو فروخت کی جائے تو یہ فروخت صحیح ہوتی ہے، لہٰذا تمویلی ادارہ کا اپنے یونٹ عمیل کو فروخت کرنا بالاتفاق صحیح ہے۔ عمران اشرف عثمانی صاحب کا اخذ کردہ نتیجہ مذکورہ بالا تمام تفصیلات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ تینوں عقود (یعنی شرکت الملک کا عقد، اجارہ کا عقد اور بیع کا عقد) فی نفسہ جائز ہیں لہٰذا اگر یہ عقود اس طرح کئےجائیں کہ ان میں سے کوئی بھی دوسرے کے ساتھ مشروط نہ ہو بلکہ ہر ایک عقدمستقل اور علیحدہ کیا جائے تو اس کے جواز میں کوئی اشکال نہیں۔ البتہ اگر فریقین ان تینوں عقود کو پہلے ہی سے اکٹھے طے کر لیں تو یہ صورتحال فقہی لحاظ سے قابل غور ہے اس لیے کہ اس میں ایک عقد دوسرے عقد میں داخل ہو رہا ہے، جسے اصطلاحاً، ”صفقۃ“کہا جاتا ہے اور یہ ناجائز ہے یہاں
Flag Counter