Maktaba Wahhabi

477 - 545
اور مشروط نہ ہو۔یعنی شکیل جو پہلے عقد میں خریدار اور دوسرے عقد میں فروخت کنندہ ہے وہ عدیل سے یہ نہ کہے کہ اگر راحیل نے مجھے جون میں آم دیے تو میں تمھیں دوں گا اور اگر اُس نے لیٹ کئے تو میں بھی لیٹ کروں گا یا اس نے سرے سے نہ دیے تو میں بھی نہیں دے سکوں گا اس شکل میں یہ سلم ناجائز ہوگی۔ راحیل وقت پردے یا نہ دے۔ عدیل کو اُس سے کوئی سرو کار نہیں یہ شکیل کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ عقد کے مطابق جون میں10 من آم عدیل کو مہیا کرے تب سلم جائز ہے کیونکہ جب تک فروخت کنندہ کسی ممکنہ نقصان کی ذمہ داریاں قبول نہیں کرتا تب تک اُس مبیع (Subject matter) کا منافع اُس پر حرام ہے شکیل کو جون میں 10 من آم مہیا کرنے کا رسک راحیل کا ہے اور عدیل کو 10 من آم جون میں مہیا کرنے کا رسک شکیل کا ہے دونوں اپنا اپنا رسک الگ اُٹھائیں تب یہ سلم جائز ہے۔ کیا سلم متوازی حدیث کے خلاف ہے؟ بعض علماء کرام نے ابو داود ، ابن ماجہ اور چند دیگر کتب احادیث میں پائی جانے والی ایک روایت سے استدلال کرتے ہوئے سلم متوازی (Parallel Salam) کو ناجائز قراردیا ہے حدیث کے الفاظ درج ذیل ہیں: (مَنْ أَسْلَفَ فِي شَيْءٍ فَلَا يَصْرِفُهُ إِلَى غَيْرِهِ قَبْلَ أَنْ يَقْبِضَهُ.))[1] ”جو شخص بیع سلم کرے تو مال پر قبضہ کرنے سے پہلے کسی دوسرے کی طرف یہ سودا منتقل نہ کرے“
Flag Counter