Maktaba Wahhabi

485 - 545
چیز کرائے پر دینا جائز نہیں لہٰذااسلامی بینکوں اور مالیاتی اداروں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اجارہ کے معاملات میں اس شرط کو ملحوظ رکھیں البتہ اجارہ پر دی جانے والی چیز کی خریداری کے لیے کلائنٹ کو ایجنٹ بنایا جا سکتا ہے اور اگر مشینری وغیرہ باہر ملک سے درآمد کی جارہی ہو تو اس صورت میں ایل۔سی(LC)کے ساتھ ہی کلائنٹ سے ایجنسی ایگریمنٹ(Agency Agreement)کرنا ضروری ہے تاکہ اس سامان کا خریدار بینک ہونہ کہ کلائنٹ۔ 3۔اجارہ پر دی گئی چیز کا معلوم ہونا: غرر سے بچنے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ اجارہ پر دی گئی چیز معلوم ہو، مجہول (غیر معلوم) چیز کو اجارہ پر دینا جائز نہیں، مثلاً یہ کہنا درست نہیں کہ ہم نے ایک گاڑی آپ کو فی ماہ اتنے کرائے کے حساب سے اجارے پر دی بلکہ یہ معلوم ہونا ضروری ہے کہ وہ گاڑی کار ہےیا کوئی اور چیز کار ہے تو کونسےماڈل اور کونسی کمپنی کی ہے(مہران، سوزوکی، ٹویٹا یا ہنڈاوغیرہ۔ اسلامی بینکوں کے اجارے کا اصلاحی جائزہ 1۔مذکورہ عبارت میں خط کشیدہ الفاظ پر غور کیا جائے کہ اسلامی بینک بکنگ کراتے ہی کلائنٹس سے علی الحساب رقم لے سکتا ہے یہ بات درست نہیں کیونکہ بینک بقول اسلامی بینک کے پہلے خود خرید کر مالک بنے گا مالک بننے کے بعد اُسے کلائنٹ کے حوالے کرے گا، کلائنٹ کی حوالگی کے بعد ہمارا کرایہ شروع ہوگا لہٰذا کار کی بکنگ کا بینک ذمہ دار ہے کلائنٹ نہیں چونکہ اس وقت اور عقد اجارہ کرتے وقت اُس کا مالک بینک ہی ہوتا ہے کمپنی سے بکنگ بینک کے نام کی ہوگی تب کلائنٹ بینک سے اجارہ کا عقد کرے گا۔ جیسا کہ بینک اسلامی نے اپنے بروشر میں وضاحت کی ہے۔ جسے بعنوان”بینک اسلامی میں اجارہ کس طرح تشکیل ہوتا ہے“ میں ملاحظہ فرمائیں:
Flag Counter