Maktaba Wahhabi

495 - 545
حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کا طرز عمل حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کا طرز عمل دیکھا جائے تو وہ موجودہ بینکاری نظام سے کافی مشابہت رکھتا ہے خصوصاً اسلامی بینکوں کے کرنٹ اکاؤنٹ سے۔ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ اپنی امانت و دیانت کے اعتبار سےمشہور تھے، اس لیے بڑے بڑے لوگ ان کے پاس اپنی امانتیں جمع کرایا کرتے تھے اور اپنی مختلف ضروریات کی بنا پر وہ اپنی پوری رقم یا تھوڑی رقمیں واپس بھی لیتے رہتے تھے، حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کے بارے میں بخاری میں تصریح موجود ہے کہ یہ لوگوں کی رقموں کو بطور امانت رکھنا منظور نہیں کرتے تھے بلکہ یہ کہہ دیا کرتے تھے: "فَیَقُولُ الزُّبَیْرُ لَا وَلَکِنَّهُ سَلَفُ."[1] ”یہ امانت نہیں بلکہ قرض ہے۔“ اس کا مقصدکیا تھا؟ شارح بخاری حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کی زبانی سنئے: "وَكَانَ غَرَضُهُ بِذَلِكَ أَنَّهُ كَانَ يَخْشَى عَلَى الْمَالِ أَنْ يُضَيَّعَ فَيُظَنَّ بِهِ التَّقْصِيرُ فِي حِفْظِهِ فَرَأَى أَنْ يَجْعَلَهُ مَضْمُونًا فَيَكُونُ أَوْثَقَ لِصَاحِبِ الْمَالِ وَأَبْقَى لِمُرُوءَتِهِ . زَادَ اِبْنُ بَطَّالٍ : وَلِيَطِيبَ لَهُ رِبْحُ ذَلِكَ الْمَالِ."[2] ”اس سے ان کا مقصد یہ تھا کہ انہیں خطرہ تھا کہ کہیں مال ضائع نہ ہو جائے اور یہ سمجھا جائے کہ انھوں نے اس کی حفاظت میں کوتاہی کی ہوگی ، اس لیے انھوں نے یہ مناسب سمجھا کہ اسے (قرض بنا کر) ہر صورت واجب الاداقراردے لیں تاکہ مال والے کو بھروسہ زیادہ رہےاور ان کی ساکھ بھی
Flag Counter