Maktaba Wahhabi

506 - 545
مشکل ہوتا ہے بیمہ پالیسی کی صورت میں تھوڑی تھوڑی جمع شدہ رقم یتیموں اور بیواؤں کا سہارا بنتی اور آڑے وقت میں ان کے کام آتی ہے۔ تھوڑا ساغور کیا جائے تو معلوم ہو جاتا ہے کہ مندرجہ بالا تمام تر صورت احوال سرمایہ دارانہ نظام کی پیدوارہے،سرمایہ دارانہ نظام ایک مخصوص ذہن عطا کرتا ہے اور وہ یہ ہے کہ ہر شخص محض اپنا ہی فائدہ سوچتا ہے اور یہ بات اسلامی معیشت کی روح کے سراسر منافی ہے جس کا پہلا سبق ہی یہی ہے۔ چنانچہ فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: عَنْ أَنَسٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ، حَتَّى يُحِبَّ لِأَخِيهِ مَا يُحِبُّ لِنَفْسِهِ.))[1] ”حضرت انس رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی مسلمان اس وقت تک مسلمان نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنے بھائی کے لیے وہی کچھ پسند نہ کرے جو وہ اپنے لیے پسند کرتا ہے۔“ لہٰذا اسلامی نظام معیشت میں ان مندرجہ بالا صورتوں میں سے کچھ تو پیدا ہی نہیں ہو تیں کیونکہ بیت المال میں ہر یقین دہانی موجود ہے جو ایک بیمہ کمپنی کرا سکتی ہے اور اگر کچھ ہوتی ہیں تو ان کا واضح حل موجود ہے۔ انشورنس کی بعض قباحتیں 1۔جو رقم انشورڈبالا اقساط ادا کرتا ہے وہ انشورنس کمپنی کے ذمہ قرض ہے اُس پر جو زائد رقم کمپنی کی طرف سے انشورڈ کو ملتی ہے جسے منافع سے تعبیر کیا جاتا ہے وہ سود ہے کیونکہ آپ نے فرمایا:
Flag Counter