Maktaba Wahhabi

51 - 545
وَعَنْ اَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: (( لَوْ اَقْرَضَ الرَّجُلُ الرَّجُلَ فَلاَ يَا خُذْ هَدْيَتَه))[1] ”حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،اگر آدمی کسی کو قرض دے تو پھر اس کا ہدیہ قبول نہ کرے۔“ یعنی قرض دینے کی صورت میں راس المال پر کسی بھی قسم کا فائدہ حاصل کرنا سود شمار ہوتا ہے،اسی لیے سود کی تعریف بھی یہی کی گئی ہے۔ قرآن و سنت کی روشنی میں ربا کا مفہوم ربا کے لفظ اور اس کے قرآنی مفہوم سے جو معنی سمجھ میں آتے ہیں احادیث و آثار اور اجماع امت سے بھی اس مفہوم کی تائید ہوتی ہے، وہ درج ذیل ہیں: 1۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ حجۃ الوداع میں ارشاد فرمایا تھا: ((أَلَا وَإِنَّ كُلَّ رِبًا فيِ الْجَاهِلِيَّةِ مَوْضُوعٌ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُوْنَ غَيْرَ رِبَا الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، فَإِنَّهُ مَوْضُوعٌ كُلُّهُ))[2] ”لوگو!خبردار ہر وہ ربا(سود)جوجاہلیت میں لوگوں کے ذمہ تھا تم پر سے پورے کا پورا ختم کردیا گیا ہے، تمھارے لیے صرف قرض کی اصل رقم(راس المال) ہے، نہ تم ظلم کرو گے اور نہ تم پر ظلم کیا جائے گا اور سب سے پہلے جو ربا ختم کیا جاتا ہے وہ عباس بن عبدالمطلب کاربا ہے، وہ پورا چھوڑدیا گیا ہے۔“ نبی علیہ السلام کے اس اعلان سے معلوم ہوا کہ راس المال یا اصل زر سے زائد جو مشروط فائدہ مقروض سے وصول کیا جاتا ہے وہ کم ہو یا زیادہ ،اور وہ کسی بھی نوعیت کا ہو
Flag Counter