Maktaba Wahhabi

513 - 545
”جب وہ اپنے قلم ڈال رہے تھے کہ ان میں سے کون مریم کی کفالت کرے گا۔“ اسی طرح حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی اس کی مثالیں موجود ہیں چنانچہ صحیح بخاری کتاب الادب میں ایک مشہور روایت ہے: ((أنا وكافِلُ اليَتِيمِ في الجَنَّةِ هَكَذا.))[1] ”میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح اکٹھے ہوں گے جس طرح یہ دو انگلیاں انگشت شہادت اور درمیانی انگلی کو ملا کر دکھایا۔“ اسلام کا نظام تکافل بنظر غائر دیکھا جائے تو اسلام کی پوری زندگی دوسرے کے دکھ درد میں اور خوشی غمی میں ایسے شریک ہے جیسے یہ درد اُس کا اپنا ہواسلام کا پورا ڈھانچہ ایک دوسرےکے احساسات اور احتیاجات کی تکمیل سے مزین ہے، ہم دیکھ رہے ہیں کہ موجودہ مغربی نظام انشورنس ہو یا اسلامی بینکوں کا رائج کردہ نظام تکافل اسلام کے پیش کردہ نظام تکافل سے نہ صرف کوسوں دور ہیں بلکہ اُن تمام اوصاف واغراض و مقاصد جیسی خوبیوں سے بھی محروم ہیں جن سے اسلام مزین ہے ہاں اگر یہ دونوں نظام چاہے وہ مغربی نظام انشورنس ہو یا مشرقی تکافل اگر کسی کے لیے کچھ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو صرف انہی حضرات کے لیے جو اس کے بیمہ دار ہوتے ہیں جو عموماً سرمایہ دار ہوتے ہیں یا متوسط طبقہ کے لوگ ہوتے ہیں، اس نظام میں ایسے شخص کے لیے جو معاشی دوڑ میں پیچھے رہ گیا ہو اُسے ساتھ ملانے کا اور گرے پڑے کو اٹھاکر ساتھ چلانے کا پروگرام ہے،اس میں ان یتیم بچوں کے لیے دست شفقت ہے جن کا غریب مرحوم باپ بیمہ دار نہ تھا۔اس نظام میں اس بیوہ کے لیے نان جویں تک کا انتظام نہیں جس کا مزدور خاوند انشورنس کمپنی یا تکافل کمپنی میں اپنایا اس بیوہ کا بیمہ نہ کراسکا، اس میں ان عام غرباءکی بھوک مٹانے اور کپڑا پہنانے کا کوئی سامان نہیں جو اپنی غربت کی وجہ سے بیمہ پالیسی نہیں خرید سکتے۔
Flag Counter