Maktaba Wahhabi

522 - 545
زوجین کا باہمی تکافل اور اسلام 1۔حضرت معاویہ بن حیدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: عن حكيم بن معاوية القشيري عن أبيه قال : ( قُلْتُ : يَا رَسُولَ اللّٰهِ ! مَا حَقُّ زَوْجَةِ أَحَدِنَا عَلَيْهِ ؟ قَالَ : ((أَنْ تُطْعِمَهَا إِذَا طَعِمْتَ ، وَتَكْسُوَهَا إِذَا اكْتَسَيْتَ ، أَوْ اكْتَسَبْتَ ، وَلَا تَضْرِبْ الْوَجْهَ ، وَلَا تُقَبِّحْ ، وَلَا تَهْجُرْ إِلَّا فِي الْبَيْتِ.))[1] ”حضرت معاویہ بن حیدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں سے کسی پر اس کی بیوی کا کیا حق ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب کھانا کھائے تو اسے بھی کھلا،جب تو کپڑا پہنے تو اسے بھی پہنا،تو(اس کے)چہرے پر نہ مار،نہ اسے بدصورت کہو،(اور ناراضگی کی صورت میں)اسے گھر سے باہر نہ کرو (یعنی گھر سے نہ نکالو)۔ البتہ اسلام نے مالدار بیوی کو بھی ترغیب دی ہے کہ وہ اپنے مال سے مالی طور پر کمزور خاوند پر خرچ کرے اور یہ اس اہلیہ کے لیے صدقہ شمار ہوگا بلکہ اس کو دوہرے اجر کا وعدہ کیا گیا ہے، ایک صدقہ کرنے کا اور دوسرا قرابت داری کا۔“ 2۔امام بخاری رحمۃاللہ علیہ نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور ان کی اہلیہ محترمہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا کا واقعہ نقل کیا، جنہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف اپنا صدقہ (زکوۃ) اپنے خاوند پر خرچ کرنے کی اجازت دی بلکہ ترغیب فرمائی اور دوہرے اجر کی خوش خبری سنائی۔ ((نَعَمْ ، لَهَا أَجْرَانِ أَجْرُ الْقَرَابَةِ وَأَجْرُ الصَّدَقَةِ))[2]
Flag Counter