Maktaba Wahhabi

525 - 545
دوسری جگہ لکھتے ہیں: "كَانَ النِّظَامُ الْاِسْلَامِيْ كُلُّه يَقُوْمُ عَليٰ اَسَاسِ التَّكَافُلِ."[1] ”اسلام مکمل نظام تکافل کی بنیاد پر قائم ہے“ مغربی انشورنس سے متعلق آپ گزشتہ صفحات میں پڑھ چکے ہیں کہ وہ بالا تفاق حرام ہے اور اس کو اگر مختلف زاویوں سے دیکھا جائے تو اس میں متعدد خرابیاں بیک وقت موجود ہیں وہ رباء بھی ہے، قمار بھی ہے اور غرر بھی،اور جب بیمہ کی میعاد پوری ہونے سے قبل وہ حادثہ پیش آجاتا ہے جس کی لیے بیمہ کرایا گیا تھا تو کمپنی اُسےاُس کی جمع شدہ رقم ادا کرتی ہے جو بلا عوض ہونے کے سبب حرام اور باطل ہے۔ اکل باطل کی توضیح قرآن حکیم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلا أَنْ تَكُونَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِنْكُمْ﴾[2] ”اے ایمان والو! تم آپس میں ایک دوسرے کا مال باطل طریقہ سے نہ کھاؤ سوائے اس کے وہ تجارت کا طریقہ ہو اور باہم رضا مندی سے۔“ اس میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے کاروباری لین دین کے ایسے مال کو اکل بالباطل سے تعبیر فرمایا اور اس سے مسلمانوں کو روکا ہے جس کا کوئی عوض و مقابل نہ ہو۔ امام رازی رحمۃ اللہ علیہ کی تفسیر: امام رازی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی تفسیر میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اور حضرت
Flag Counter