Maktaba Wahhabi

529 - 545
قیدی ہوگا اس قیدی کے چھڑانے کا فدیہ اسی قبیلہ کے ذمہ ہوگا۔[1] جہاں تک نظریات کا تعلق ہے وہاں تک کسی بھی ذی شعور کو اختلاف نہیں ہو سکتا،اغراض و مقاصد کے اعتبار سے تو مروجہ انشورنس کا معاملہ بھی ناجائز نظر نہیں آتا اُن کے ہاں بھی اس کی اصل غرض کسی نقصان زدہ کے نقصان کی تلافی اور کسی کے مستقبل کے ممکنہ خطرات و حادثات کا تحفظ بتلایا جاتا ہے اور یہ انتہائی نیک مقصد ہے اس کے باوجود تمام علماء اُس کی حرمت پرمتفق ہیں ، ہر ذی شعور سمجھتا ہے کہ کسی کام کے درست اور جائز ہونے کے لیے صرف نیک نیتی کافی نہیں ہوتی اُس کا طریقہ کار بھی خاص اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔جس کے لیے شریعت اسلامیہ سے موافقت رکھنا ضرور ہوتا ہے۔ کیا تکافل توکل کے منافی ہے؟ بعض لوگ کہتے ہیں کہ انشورنس یا تکافل اسلام کے تصور توکل کے خلاف ہے،لیکن یہ محض غلط فہمی ہے، کیونکہ توکل کے معنی ترک اسباب کے نہیں ، بلکہ اسباب کو اختیار کرنے اور اس کے نتائج و ثمرات کو اللہ جل جلالہ کے حوالے کرنے کے ہیں،یہ توکل ہے جیسا کہ ایک صحابی رضی اللہ عنہ کے بارے میں ترمذی شریف میں وارد ہے۔ قَالَ رَجُلٌ يَا رَسُولَ اللّٰهِ صلي اللّٰه عليه وسلم: أَعْقِلُهَا وَأَتَوَكَّلُ أَوْ أُطْلِقُهَا وَأَتَوَكَّلُ قَالَ: (( اعْقِلْهَا وَتَوَكَّلْ.))[2] ”ایک صحابی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول!میں اپنے اُونٹ کو باندھ کر اللہ پر توکل کروں یا اس کو چھوڑ کر اللہ پر توکل کروں؟(تونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا!)”پہلے اُونٹ کو باندھو پھر اللہ جل جلالہ پر توکل کرو۔“
Flag Counter