Maktaba Wahhabi

556 - 545
اصلاحی جائزہ مذکورہ مجلس میں شریک علماء کرام کے اسماء گرامی پر غور کیا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ گویا دیوبند جماعت کی کریم جمع تھی، اس کے باوجود اشکالات کا یقینی خاتمہ ممکن نہ ہو سکا، یہی وجہ ہے کہ جناب ڈاکٹر نور محمد غفاری صاحب کو یہ اعتراف کرنا پڑا کہ،”اگرچہ ان اشکالات کے اپنے اپنے طور پر جوابات دئیے ہیں۔ لیکن مجلس کو خیال ہوا کہ اس مسئلہ میں مزید تحقیق کی ضرورت ہوگی،اگر فی الحال ترجیحاً ان کمپنیوں کی بنیاد تبُّرع کے بجائے وقف پر رکھی جائے تو اس قسم کےاشکالات سے حفاظت ہو سکتی ہے“لیکن اس حفاظتی اقدام کو بھی جس کی بنیاد تبُّرع کے بجائے وقف پر رکھی گئی، اُسے بھی لفظ ”فی الحال“تک محدود رکھا جیسا کہ خط کشیدہ الفاظ سے واضح ہے، گویا چھبیس نامور شرکاء کی مجلس کے باوجود تکافل کا معاملہ انتہائی پُر تکلف رہا اور تشکیک سے باہر نہ آسکا ، مزید یہ بات علماء جانتے ہیں کہ تشکیک حق جواز کو ختم کردیتی ہے۔ تکافل اور انشورنس میں بنیادی فرق اس فرق کو واضح کرتے ہوئے جناب ڈاکٹر مولانا عصمت اللہ صاحب فرماتے ہیں: 1۔تکافل عقد تبُّرع ہے،جبکہ مروجہ انشورنس عقد معاوضہ ہے اور دونوں کے احکام بالکل الگ الگ ہیں۔ 2۔تکافل میں فائض میں سے ممبرز کو بھی حصہ مل سکتا ہے، جیسا کہ اُوپرمذکورہوا ، جبکہ انشورنس میں سارا فائض کمپنی کا ہوتا ہے۔ 3۔تکافل میں دی جانے والی رقم فنڈکی ملکیت میں جاتی ہے،کمپنی اس کی مالک نہیں ہوتی جبکہ انشورنس میں اس رقم کی مالک کمپنی ہوتی ہے۔ 4۔تکافل میں ان جمع شدہ رقوم پر حاصل شدہ نفع فنڈ میں جاتا ہے، کمپنی اس کی مالک نہیں ہوتی جبکہ انشورنس میں اس رقم کی مالک کمپنی ہوتی ہے۔ 5۔تکافل میں ان جمع شدہ رقوم پر حاصل شدہ نفع فنڈ میں جاتا ہے، کمپنی اس کی مالک
Flag Counter