Maktaba Wahhabi

563 - 545
اور یہ بات تو پھر بھی سمجھ میں آتی ہے کہ جب نقدی کا وقف جائز ہے تو اُس کا کرایہ بھی جائز ہونا چاہیے لیکن تعجب تو اس بات کا ہے کہ تکافل کے تائیدکنندگان اس بات کو توتسلیم کرتے ہیں کہ نقدی کو اُس کی اصل شکل میں باقی رکھ کر اس سے استفادہ ممکن نہیں چنانچہ جناب مولانا تقی عثمانی صاحب”لیزنگ (اجارہ) کے بنیادی قواعد“نمبر3 کے تحت لکھتے ہیں: لیز کے صحیح ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ لیز پردی گئی چیز کی ملکیت مؤجر (Lessor)ہی کے پاس رہے اور مستاجر Lessee)) کوصرف حق استعمال منتقل ہو، لہٰذا ہر ایسی چیز جسے صرف کئے بغیریا اپنے پاس سے نکالے بغیر) استعمال نہیں کیا جا سکتا ان کی لیز بھی نہیں ہو سکتی، اس لیے نقدرقم ،کھانے پینے کی اشیاء ایندھن اور گولہ بارودوغیرہ کی لیز ممکن نہیں ہے۔اس لیے کہ انہیں خرچ کئے بغیر ان کا استعمال ممکن نہیں ہے۔اگر اس نوعیت کی کوئی چیز لیز پردے دی گئی ہے تو اسے ایک قرض سمجھا جائے گا اور قرض کے سارے احکام اس پر لاگو ہوں گے۔اس غیر صحیح لیز پر جو بھی کرایہ لیا جائے گا وہ قرض پر لیا جانے والا سود ہوگا۔“[1] عثمانی صاحب کی مذکورہ عبارت میں خط کشیدہ الفاظ سے واضح ہے کہ نقدی ایک ایسی چیز ہے جس کا استعمال خرچ کئے بغیر ممکن نہیں ہے یقیناً یہ معاملہ کسی تعجب سے خالی نہیں ہے کہ اجارے میں جس حقیقت کا اعتراف ،اقرار اور اظہار کیا گیا ہے اوقاف میں اُس حقیقت سےانکار کیوں کیا گیا ہے؟ ایک اشکال اور اُس کا جواب جو لوگ نقود کے وقف کے قائل ہیں ان کے خیال میں نقدی (کرنسی)کو باقی رکھ کر استفادہ کیا جا سکتا ہے اور اُس کی شکل یہ بیان کی جاتی ہے کہ روپے کو کاروبار میں لگایا جائے اُس سے حاصل ہونے والے نفع کو خرچ کر کے استعمال کیا جائے اور اصل زر کو باقی رکھا جائے مگر یہ
Flag Counter