Maktaba Wahhabi

564 - 545
خیال درج ذیل تین وجوہ کی بنیاد پر درست نہیں ہے۔ 1۔ یہ ضروری نہیں کہ اصل زر کاروبار میں لگانے سے فائدہ ہی ہو نقصان بھی تو ہو سکتا ہے۔ 2۔نقدی کو جب آپ کسی بھی کاروبار میں لگائیں گے اُس سے نفع ہوتا ہے یا نقصان یہ معاملہ تو بعد کا ہے لیکن نقدی اپنی اصل شکل و صورت اس سے پہلے کھو چکی ہو گی اگر آپ کپڑے کا کاروبار کریں گے تو نقدی کپڑے میں تبدیل ہو جائے گی اور اگر چاول کاکام کریں گے تو نقدی چاولوں میں تبدیل ہو جائے گی۔ 3۔اور اگر اس طرح کی تبدیلی مانع نہیں ہے تو پھر نقدی کو اجارے (کرائے) پر بھی دیا جا سکتا ہے کیونکہ جس کو ہم ایک لاکھ روپیہ کرائے پردیں گے وہ بھی اُس سے کاروبار کر کے ہمارا کرایہ بھی چکاتا رہے گا اور اپنا گھر بھی چلاتا رہے گا اور آخر میں ہمارا ایک لاکھ روپیہ واپس بھی کردے گا ،(اللہ اللہ خیرسلا)۔ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا محترم جناب ڈاکٹر عصمت اللہ صاحب اپنی کتاب”تکافل کی شرعی حیثیت“میں ص129پر امام زفر رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد خاص محمد بن عبد اللہ انصاری رحمۃ اللہ علیہ کے فتوے کا سہارا لیتے ہوئے فرماتے ہیں: ”فقہاء کرام نے نقود موقوفہ کو مضاربت پردینے کی اجازت دی ہے اور ظاہر ہے کہ نقود کو مضاربت پر دینے سے ان کا عین باقی نہیں رہے گا بلکہ ان کا بدل باقی رہے گاجو ان نقود کا قائم مقام سمجھا جائے گا۔“ فی فتح القدیر6/19: "وَعَنْ الْأَنْصَارِيِّ وكان من أَصْحَابِ زُفَرَ في من وَقَفَ الدَّرَاهِمَ أو الدَّنَانِيرَ أو الطَّعَامَ أو ما يُكَالُ أو يُوزَنُ أَيَجُوزُ قال نعم .قِيلَ وَكَيْفَ قال تُدْفَعُ الدَّرَاهِمُ مُضَارَبَةً ثُمَّ يُتَصَدَّقُ بها في
Flag Counter