Maktaba Wahhabi

59 - 545
"اُنْظُرْ مَنْ كَانَتْ عَلَيْهِ جِزْيَةٌ فَضَعُفَ عَنْ أَرْضِهِ , فَأَسْلِفْهُ مَا يَقْوَى بِهِ عَلَى عَمَلِ أَرْضِهِ ، فَإنَّا لَا نُرِيْدُهُمْ لِعَامٍ وَلَالِعَامَيْنِ."[1] ”اگر کوئی جزیہ دینے والا اپنی زمین کی آمدن سے جزیہ دینے کے قابل نہیں ہے تو اس کو قرض دیدو جس سے وہ اپنی زمین کا کاروبار چلا سکے، ہم ان سے سال دو سال تک نہیں مانگیں گے۔“ جب بیت المال کے جمع شدہ اموال کا کوئی مصرف نہ ملا تو پھر خلیفہ خامس حضرت عمربن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ نے اس مال سے غلام خرید کر آزاد کر دئیے۔ یہ افسانے نہیں تاریخی حقائق ہیں۔ ایک طرف مال کی یہ فراوانی اور دوسری طرف سر کاری اور نجی اخراجات میں دانشمندانہ تصرفات اس پر مستزاد لوگوں کا استغنا اور سیر چشمی کہ حکومت کی طرف سے ملنے کے باجود کوئی لینے کو تیار نہیں ہے۔ اور یہ سود کی لعنت سے بچنے کا نتیجہ تھا۔ قرآن کریم پر ایک اور نظر مذکورہ بالا تاریخی حقائق اور واقعاتی صورت حال کے علاوہ قرآن کریم اور سنت نبویہ پر ایمان داری کے ساتھ غور کریں، تو بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ ربا اور ربوی معاملات اور سودی نظام میں انسان کی اقتصادی ضرورت قطعاً نہیں ہے۔ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں کوئی ایک حوالہ بھی ایسا نہیں ملتا جس سے یہ پتہ چلتا ہو کہ حاجت یا ضرورت کے وقت انسان مجبوراً ربوی (سودی) نظام سے کلی یا جزوی استفادہ کر سکتا ہے، یا کبھی اس کی ضرورت پڑ سکتی ہے بلکہ دو ٹوک الفاظ میں اس کے متعلق یہی کہا گیا ہے کہ:”سود اور اس کے بقایا جات کو مکمل طور پر چھوڑ دو،یا پھر
Flag Counter