Maktaba Wahhabi

83 - 545
2۔جب ہم قرآن کو پہلا ماخذ اور حدیث کو دوسرا ماخذ کہتے ہیں تو اُس سے یہ مراد ہرگز نہیں ہونی چاہیے کہ ہر مسئلہ سب سے پہلے قرآن میں تلاش کیا جائے اگر اُس میں نہ ملے تب حدیث میں ڈھونڈا جائے یہ فکر مقلدین کی پیدا کردہ ہے۔ اگر کسی مسئلے سے متعلق آپ کے پاس فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے دلیل موجود ہے یا فعل نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے یا پھر تقریر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح سند سے آپ کے پاس دلیل موجود ہے تو آپ عمل سے پہلے اُس کی مزید دلیل قرآن مجید سے تلاش کرنے کے مکلف نہیں ہیں اس لیے کہ حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی وحی الٰہی ہے جس طرح کہ قرآن مجید وحی الٰہی ہے فرق صرف یہ ہے کہ قرآن مجید ایسی وحی ہے جس میں الفاظ و مضامین اللہ جل جلالہ کے نازل کردہ ہیں اور حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایسی وحی ہے جس میں بیان کردہ مضامین اللہ جل جلالہ کے القاء کردہ ہیں البتہ الفاظ کی تزئین رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان کردہ ہے۔ 3۔بنیادی طور پر سب کے نزدیک ماخذ شریعت اِسلامیہ صرف دو ہی ہیں یعنی قرآن مجید اور حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باقی دو ماخذ یعنی اجماع اور قیاس پہلے اور دوسرے ماخذ کے تابع ہیں۔ 3۔اجماع (Consensus): لُغوی معنی: کسی بات یا مسئلے پرہم خیال ہونا، متفق ہونا اجماع کہلاتا ہے۔ اِصطلاحی مفہوم: " اتَّفَاقُ رَاْيِ الْمُجْتَهِدِيْنَ مِنْ اُمَّةِ مُحَمَّدٍ صلي اللّٰه عليه وسلم فِيْ عَصْرٍ مَّا عَلَي حُكْمٍ
Flag Counter