Maktaba Wahhabi

9 - 84
انفرادی آراء بھی پائی جاتی تھیں۔ سیدنا عمررضی اللہ عنہ اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا حج تمتع سے انکار ۔سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا جنبی کے تیمم سے انکار، سیدنا ابن مسعودرضی اللہ عنہ کا نماز میں تشبیک کرنا، قرآن عزیز کے متعارف مجموعہ پر اعتراض اورابن عباس رضی اللہ عنہ کا متعۃ النکاح کے جواز کی طرف رجحان وغیرہ امور۔ مگر وہ ان چیزوں کو گوارا فرماتے تھے وہ سمجھتے تھے۔ ہر آدمی اپنے فہم اور علم کا پابند ہے۔ ان اختلافات کی بنیاد نہ تو عناد پر ہے نہ جامد تقلید پر۔ بلکہ اہل علم نے جو کچھ نیک دلی سے سمجھا اس پر عمل کر لیا۔ اہل حدیث نے فرعی اختلافات پر اپنے مسلک اور مکتب فکر کی بنیاد اسی روش پر رکھی۔ ائمہ تابعین کابھی یہی طریق رہا۔ اس کا پتہ کتب حدیث ،شروح حدیث اور فقہاء حدیث کی تصانیف سے تفصیلاً چل سکتا ہے کہ کس وسعت قلب سے ان اختلافات کو گوارا اور برداشت فرمایا گیا ۔ اور اس اختلاف سے وحدت اسلامی کوکوئی نقصان نہیں پہنچا بلکہ عقائد اور اصول میں اس وقت کوئی اختلاف نہیں ہوا اور اگر کہیں کوئی بدعی عقیدہ پیدا ہوا اسے دبا دیا گیا ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ اور عمر بن عبدالعزیز کا حروریہ سے مناظرہ (جامع فضل العلم ص 103؍2ص196؍2)اورسیدنا عمر کا صیغ اسلمی کی سرکوبی سے واضح ہوتا ہے کہ عقائد میں اختلاف گوارا نہیں کیاجاتا تھا۔ اہلحدیث کا مسلک بھی یہی تھا کہ فروع میں اپنی تحقیق پر عمل کیا جائے۔ اختلاف کو گوارا کیا جائے اس میں تشدد نہ کیا جائے اور اصو ل کی پوری پختگی سے پابندی کی جائے۔ عباسی انقلاب دوسری صدی ہجری کے آغاز میں اموی حکومت کا چراغ گُل ہوگیا اور اس کی جگہ عباسی حکومت نے لے لی۔ اور قلمدان وزارت پر قابض ہوگئے۔ فارسی عناصر آگے بڑھے عرب معتوب ہوکر حکومت سے دور دور رہنے لگے۔ یونانی نظریات نے اسلامی روایات کو متاثر کرنا
Flag Counter