Maktaba Wahhabi

112 - 222
جیسا کہ تہذیب التہذیب اور تہذیب الکمال میں موجود اس کے ترجمہ سے ثابت ہے، اس پر مزید یہ کہ وہ تمام احتمال،جن کا ہم سابقہ صفحات میں ذکر کرتے آئے ہیں،یہاں بھی پائے جاسکتے ہیں،جن کی موجودگی میں اس اثرسے استدلال باطل ہوجاتاہے۔ پندرھواں شبہ کچھ لوگوں نے عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کی روایت کا سہارالیا ہے،وہ فرماتے ہیں: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا کہ اچانک فاطمہ رضی اللہ عنہا تشریف لائیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھڑی ہوگئیں،میں نے فاطمہ رضی اللہ عنہاکے چہرے کی طرف دیکھا،ان کے چہرے کی رنگت سے خون کی سرخی غائب تھی۔ پھرعمران بن حصین نے،فاطمہ رضی اللہ عنہاکیلئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کا ذکر کیا ،عمران کہتے ہیں: میں نے دوبارہ فاطمہ رضی اللہ عنہاکاچہرہ دیکھا تو اس پر خون کی سرخی چھاچکی تھی،اور وہ زردی جوپہلے چہرے پر غالب تھی رخصت ہوچکی تھی…۔ یہ قصہ ابن جریر نے تہذیب الآثار میں اور دولابی نے الکنیٰ میں ذکرفرمایاہے۔ اس کاجواب متعدد وجوہ سے ہے: اس کی سند ضعیف ہے،بلکہ کچھ علماء نے موضوع قراردیاہے؛کیونکہ اس کی سند میں مسھر بن عبدالمالک ہے،حافظ ابن حجر نے تقریب التہذیب میں اسے لین الحدیث کہا ہے ،جبکہ اس حدیث کا ایک اور راوی عتبہ بن حمید الضبی ہے ،ابن ابی حاتم نے اپنی کتاب الجرح والتعدیل میں نقل فرمایا ہے کہ اس کی حدیث کے بارہ میں امام احمد بن حنبل سے پوچھا گیا توانہوں نے فرمایا:یہ ضعیف ہے اور قوی نہیں ہے ۔ بالفرض اس اثرکی صحت کو مان بھی لیاجائے تو اسے نزولِ حجاب سے قبل پر محمول کیاجائے گا۔
Flag Counter