کے جذبات جوکسی عورت کے وجود کودیکھنے سے بھڑکے تھے، وہ اپنی بیوی سے ہم بستر ہونے سے ہی سرد ہوں گے۔(توجوکچھ اس اجنبی عورت کے پاس تھا وہی اسے اپنی بیوی کے پاس حاصل ہوگیا) (۲)اگریہ تسلیم کرلیں کہ وہ عورت کھلے چہرے کے ساتھ پھر رہی تھی ،تو یہ کسی شرعی عذر پرمحمول ہوسکتاہے۔ (۳)امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس حدیث میں جویہ ذکر ہوا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عورت کودیکھا…اس کامعنی یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس پراچانک نظر پڑ گئی، اوریہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاخاصہ تھا کہ عورتیں آپ سے پردہ نہیں کرتی تھیں ابوالمعالی نے بھی اسی طرح بیان کیا ہے۔[1] راقم الحروف کہتا ہے:راجح قول یہی ہے کہ عورتیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی اسی طرح پردہ کیا کرتی تھیں، جس طرح دیگرمردوں سے کرتی تھیں۔واللہ اعلم اکتالیسواں شبہ کچھ لوگوں نے عون بن ابی جحیفہ سے مروی ایک حدیث کا سہارالیا ہے،چنانچہ عون کے والد ابوجحیفہ فرماتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلمان فارسی اور ابوالدرداءرضی اللہ عنہما کے مابین مواخات قائم فرمائی تھی، ایک دن سلمان فارسی رضی اللہ عنہ ، ابوالدرداءرضی اللہ عنہ کی زیارت کی غرض سے تشریف لائے،انہوں نے ام الدرداء رضی اللہ عنہا کو بڑی پراگندہ حالت میںدیکھا، توان سے پوچھا:تم نے کیا حال بنا رکھا ہے؟ ام الدرداء رضی اللہ عنہا نے جواب دیا:تمہارے بھائی ابوالدرداء کا دنیا سے کوئی لگاؤ نہیں رہا…الخ۔ (صحیح بخاری) |
Book Name | چہرے اور ہاتھوں کا پردہ |
Writer | فضیلۃ الشیخ علی بن عبداللہ النمی |
Publisher | مکتبۃ عبداللہ بن سلام لترجمۃ کتب الاسلام |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی |
Volume | ایک جلد |
Number of Pages | 222 |
Introduction | زیر نظر کتاب علی بن عبداللہ النمی کی تالیف ہے اور اس کا اردو ترجمہ فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی صاحب حفظہ اللہ نے کیا ہے، اس کتاب میں خواتین کے پردے کے حوالے سے سیر حاصل بحث کی گئی ہے، اس میں ایسے تمام شبہات کا تعاقب کیا گیا ہے جن پر ان لوگوں کا اعتماد تھا جو مسلم خاتون کو بے پردگی کی دعوت دینے میں کوشاں و حریص ہیں،کتاب بنیادی طور پر دو ابواب میں منقسم ہے ، ایک باب میں ان شبہات کا جائزہ لیا گیا ہے جو چہرے کے پردے سے متعلق ہیں اور دوسرا باب ہاتھوں کے ڈھانپنے کے وجوب سے متعلق شہبات کے ازالے پر مشتمل ہے۔ |