کا لفظ ہے،جس کامعنی بھوکی عورت ۔جبکہ ایک اور روایت میں جسے محققین نے صحیح قرار دیا ہے،(مسبغہ)کی جگہ (مشنعہ) کالفظ ہے،جس کامعنی ابن الاثیر کے قول کے مطابق: ایسی خاتون جو بدہیئت اور قبیح الشکل ہوچکی ہو۔[1] (یہ اس کے بوڑھاہونے کی دلیل ہے) تینتالیسواں شبہ کچھ لوگوں نے عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہماسے مروی ایک حدیث کا سہارالیا ہے، وہ فرماتے ہیں:مرداورعورتیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دورمیں اکٹھے وضوکیاکرتے تھے۔( بخاری ومسلم) جواب: اس حدیث میں مرد کا اپنی بیوی کے ساتھ اکٹھا وضوکرنے کا ذکر ہے( نہ کہ اجنبی خواتین وحضرات کا)اس حدیث پر امام بخاری رحمہ اللہ کے قائم کردہ باب[2] سے بھی یہی فقہ حاصل ہورہی ہے۔ یہ شبہ ہمارے معاصر ین میں سے ایک صاحب ،جن کا علم سے کوئی خاص ربط یا سابقہ نہیں ہے،کا پیدا کردہ ہے ،شیخ احمد شاکر رحمہ اللہ نے مسند احمد کی شرح میں ان صاحب کے اس شبہ کا خوب رد فرمایا ہے،ساتھ ساتھ انہیں بھی آڑے ہاتھوں لیا ہے۔ چوالیسواں شبہ کچھ لوگوں کا کہنا ہے:ہم تاریخ کے صفحات میں،بہادری کے بڑے بڑے کارنامے اور بڑی بڑی معاشرتی خدمات پاتے ہیں،جو عورتوں نے انجام دی ہیں، ان خدمات کی ادائیگی میں پردے کا کوئی تصور نہیں کیاجاسکتا۔ جواب: اس قول کا ردی پن،اس کے ظاہر ہی سے واضح ہے ۔ |
Book Name | چہرے اور ہاتھوں کا پردہ |
Writer | فضیلۃ الشیخ علی بن عبداللہ النمی |
Publisher | مکتبۃ عبداللہ بن سلام لترجمۃ کتب الاسلام |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی |
Volume | ایک جلد |
Number of Pages | 222 |
Introduction | زیر نظر کتاب علی بن عبداللہ النمی کی تالیف ہے اور اس کا اردو ترجمہ فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی صاحب حفظہ اللہ نے کیا ہے، اس کتاب میں خواتین کے پردے کے حوالے سے سیر حاصل بحث کی گئی ہے، اس میں ایسے تمام شبہات کا تعاقب کیا گیا ہے جن پر ان لوگوں کا اعتماد تھا جو مسلم خاتون کو بے پردگی کی دعوت دینے میں کوشاں و حریص ہیں،کتاب بنیادی طور پر دو ابواب میں منقسم ہے ، ایک باب میں ان شبہات کا جائزہ لیا گیا ہے جو چہرے کے پردے سے متعلق ہیں اور دوسرا باب ہاتھوں کے ڈھانپنے کے وجوب سے متعلق شہبات کے ازالے پر مشتمل ہے۔ |