گیارھو یں فصل (کچھ عقلی شبہات جو ناقابل تسلیم ہیں) سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: اگر دین کا تعلق رائے سے ہوتا توموزوں کے اوپر کی بجائے،موزوں کے نیچے مسح کرنا بہتر ہوتا،جبکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے کہ آپ موزوں کے اوپر مسح کیاکرتے تھے۔(ابو داؤد) امیر المؤمنین عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :اے لوگو!دین میں رائے کے استعمال کو متہم (معیوب)جانو۔ پینتالیسواں شبہ (یہ لوگ کہتے ہیں)چہرے اور ہاتھوں کا،اجنبی مردوں کے سامنے کھلا رکھنا اصل ہے،لہذاجب تک کوئی ایسی دلیل نہ آجائے جو اس اصل کو منسوخ کردے اس وقت تک یہ حکم اپنے اصل پر قائم رہے گا۔ جواب:آیاتِ حجاب (جن کابیان ہوچکا)اس اصل کو ختم کررہی ہیں،نیز چہرہ کا اجنبی مردوں کے سامنے کھلارکھنے کے جواز کو منسوخ کررہی ہیں اور(بحمداللہ )اسے ڈھانپنے کے وجوب پر دلالت کررہی ہیں،اور یہ ایک بالکل واضح اور کھلم کھلی حقیقت ہے۔ اب یہاں ایک بات کی طرف اشارہ کرنا انتہائی مناسبِ مقام ہوگااور وہ یہ کہ پردہ کی فرضیت کو،بے پردگی کی ہردلیل پر ترجیح وتقدیم حاصل ہوگی،خواہ متقدم اور متاخر دلیل کا علم نہ بھی ہو؛کیونکہ بے پردگی کی دلیل اپنے اصل پر قائم ہے اور پردہ کے |
Book Name | چہرے اور ہاتھوں کا پردہ |
Writer | فضیلۃ الشیخ علی بن عبداللہ النمی |
Publisher | مکتبۃ عبداللہ بن سلام لترجمۃ کتب الاسلام |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی |
Volume | ایک جلد |
Number of Pages | 222 |
Introduction | زیر نظر کتاب علی بن عبداللہ النمی کی تالیف ہے اور اس کا اردو ترجمہ فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی صاحب حفظہ اللہ نے کیا ہے، اس کتاب میں خواتین کے پردے کے حوالے سے سیر حاصل بحث کی گئی ہے، اس میں ایسے تمام شبہات کا تعاقب کیا گیا ہے جن پر ان لوگوں کا اعتماد تھا جو مسلم خاتون کو بے پردگی کی دعوت دینے میں کوشاں و حریص ہیں،کتاب بنیادی طور پر دو ابواب میں منقسم ہے ، ایک باب میں ان شبہات کا جائزہ لیا گیا ہے جو چہرے کے پردے سے متعلق ہیں اور دوسرا باب ہاتھوں کے ڈھانپنے کے وجوب سے متعلق شہبات کے ازالے پر مشتمل ہے۔ |