اچانک ان کی انگلی میری انگلی کوچھوگئی،عمررضی اللہ عنہ کے منہ سے رنج والم سے بھری آواز نکلی ، انہوںنے کہا: (اے عورتو!) اگر تمہارے بارے میں میری بات مان لی جائے توتمہیں کوئی آنکھ نہ دیکھ سکے۔اس کے بعد حجاب کاحکم نازل ہوگیا.[1] (۲)اس حدیث کے راوی عبداللہ بن محمد کے بارہ میں مجمع الزوائد اور الفتح الربانی میں ہے کہ وہ عبداللہ بن زید بن عبد ربہ کا بیٹا ہے،اس عبداللہ کو ابن حبان نے(الثقات) میں ذکر کیا ہے ،اور یہ ذکر ان کے اس قاعدہ کے تحت ہے جس کی علماء نے موافقت نہیں فرمائی،یعنی : مجہول راویوں کی (اپنے خاص قانون کے تحت)توثیق ۔ حافظ ابن حجر نے (تقریب التھذیب) میں اسے مقبول لکھاہے،جس کامعنی یہ ہے کہ متابعت کی صورت میں اس کی حدیث قابلِ قبول ہوگی،جبکہ اس روایت میں کوئی بھی اس کی متابعت نہیں کررہا.[2] چوتھا شبہ کچھ لوگوں نے ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث کاسہارالیا ہے، وہ فرماتے ہیں: ہبیرہ کی بیٹی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی ،اس کے ہاتھ میں سونے کی انگوٹھی تھی،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے ہاتھ کو چھڑی سے مارنے لگے اور فرمانے لگے: کیا تم چاہتی ہوں کہ اللہ تعالیٰ تمہارے ہاتھ میں آگ کی انگوٹھیاں ڈال د ے؟( سنن نسا ئی وغیرہ) جواب: یہ واقعہ بھی آیتِ حجاب کے نزول سے قبل پرمحمول ہے ،جس کی دلیل یہ ہے کہ اس نے سونے کی انگوٹھی ظاہرکی ہوئی تھی،جسے ظاہر کرنا ممنوع تھا،حتی کہ ہاتھ کھلا رکھنے کے جواز کے بعض قائلین کے نزدیک بھی ۔ |
Book Name | چہرے اور ہاتھوں کا پردہ |
Writer | فضیلۃ الشیخ علی بن عبداللہ النمی |
Publisher | مکتبۃ عبداللہ بن سلام لترجمۃ کتب الاسلام |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی |
Volume | ایک جلد |
Number of Pages | 222 |
Introduction | زیر نظر کتاب علی بن عبداللہ النمی کی تالیف ہے اور اس کا اردو ترجمہ فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی صاحب حفظہ اللہ نے کیا ہے، اس کتاب میں خواتین کے پردے کے حوالے سے سیر حاصل بحث کی گئی ہے، اس میں ایسے تمام شبہات کا تعاقب کیا گیا ہے جن پر ان لوگوں کا اعتماد تھا جو مسلم خاتون کو بے پردگی کی دعوت دینے میں کوشاں و حریص ہیں،کتاب بنیادی طور پر دو ابواب میں منقسم ہے ، ایک باب میں ان شبہات کا جائزہ لیا گیا ہے جو چہرے کے پردے سے متعلق ہیں اور دوسرا باب ہاتھوں کے ڈھانپنے کے وجوب سے متعلق شہبات کے ازالے پر مشتمل ہے۔ |