خاتمہ ہماری سابقہ بحث سے بہت سے نتائج برآمد ہورہے ہیں،جن میں سے کچھ اہم نتائج اور فوائد کا الگ سے ذکرکرنا مناسب معلوم ہورہاہے: اسلامی سلطنتین اوربالخصوص بلادِ حرمین شریفین ،اسلام کے دشمنوں اور ان کے ہمنواؤں کی گمراہ کن دعوت کا خصوصی ہدف ہیں۔ مسلمان عورت اسلامی آداب کے ساتھ مزین ہوتی ہے،یہ آداب ببانگِ دہل اس امر کااعلان کرتے ہیں کہ مسلمان عورت اپنے پردے اور عزت ووقار کے اہتمام میں خوب مبالغے سے کام لے۔ ہمارا یہ زمانہ فتنے کا زمانہ ہے،ان حالات میں علماء اسلام کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ان ضروری احتیاطات کو اختیار کریں جوان تمام ذرائع کا سدِ باب کرسکیں جو شرکادروازہ کھولتے ہیں،ان ذرائع میں سرفہرست چہرہ کی بے پردگی کی اباحت کا فتویٰ ہے۔ چہرے کا اجنبی مردوں کے سامنے ظاہرکرنا ایک ایسامسئلہ ہے جس کاحرام ہونا جمہور علماء کے قول سے ثابت ہے،اور یہی قول صحیح ہے،تمام شرعی ادلہ اور اصولی قواعد اسی قول کی تا ئید کرتے ہیں۔ جوشخص ائمۂ اربعہ میں سے کسی امام کی طرف یہ قول منسوب کرے کہ وہ اس زمانے میں عورت کیلئے کھلے منہ راستوں اوربازاروں میں گھومناپھرنا جائز قرار دیتے ہیں،تو اس نے اس امام پر افتراء باندھا ہے اور اس کی طرف ایک ایسا قول منسوب کیا ہے جوانہوں نے نہیں فرمایا۔ |
Book Name | چہرے اور ہاتھوں کا پردہ |
Writer | فضیلۃ الشیخ علی بن عبداللہ النمی |
Publisher | مکتبۃ عبداللہ بن سلام لترجمۃ کتب الاسلام |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی |
Volume | ایک جلد |
Number of Pages | 222 |
Introduction | زیر نظر کتاب علی بن عبداللہ النمی کی تالیف ہے اور اس کا اردو ترجمہ فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی صاحب حفظہ اللہ نے کیا ہے، اس کتاب میں خواتین کے پردے کے حوالے سے سیر حاصل بحث کی گئی ہے، اس میں ایسے تمام شبہات کا تعاقب کیا گیا ہے جن پر ان لوگوں کا اعتماد تھا جو مسلم خاتون کو بے پردگی کی دعوت دینے میں کوشاں و حریص ہیں،کتاب بنیادی طور پر دو ابواب میں منقسم ہے ، ایک باب میں ان شبہات کا جائزہ لیا گیا ہے جو چہرے کے پردے سے متعلق ہیں اور دوسرا باب ہاتھوں کے ڈھانپنے کے وجوب سے متعلق شہبات کے ازالے پر مشتمل ہے۔ |