Maktaba Wahhabi

14 - 166
یہ ایک اہم سوال ہے۔ بلاشبہ اگر یہی مستشرقین مغربی علوم وفنون کے لیے اپنے آپ کو وقف کر دیتے تو نسبتاً زیادہ مالی یا معاشرتی فوائداور شہرت حاصل کر سکتے تھے، لیکن اس کے باوجود انہوں نے اپنی صلاحیتوں کو مشرقی علوم وفنون کے لیے وقف کر دیا۔ مسلمان اہل علم نے تحریک استشراق کے کئی ایک اہداف ومقاصد بیان کیے ہیں، جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں: دین اسلام کی تعلیمات اور تصویر کو مسخ کرنا جرمن مستشرق روڈولف روڈی پارٹ Rudolf Rudi Paret (۱۹۰۱۔۱۹۸۳ء) کا کہنا ہے کہ معاصر استشراقی جدوجہد کا مقصود دین اسلام کو باطل دین ثابت کرنا اور مسلمانوں کو دین مسیحیت کی طرف راغب کرنا ہے۔ 43 روڈی پارٹ نے یہ بھی لکھا ہے کہ ازمنہ وسطیٰ (Middle Ages) میں عیسائیوں کی ایک بڑی تعداد علوم اسلامیہ کی طرف اس لیے متوجہ ہوئی کہ دین اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کو مسخ کر سکے، کیونکہ ان کا یہ ذہن بن چکا ہوا تھا کہ جو دین بھی مسیحیت کے خلاف ہے، اس میں کوئی خیر نہیں ہو سکتی۔44 اسلام کے غلبے کا خوف (Islam Phobia) مغرب میں اسلام کے پھیلاؤ کو روکنا اور عیسائی دنیا کو مسلمان ہونے سے بچانابھی تحریک استشراق کے اہم مقاصد میں سے ہے۔ اس مقصد کے تحت مستشرقین کی ایک بڑی تعداد نے اپنی تحقیقات کے ذریعے مسلمانوں اور اسلام کے بارے میں اہل یورپ کے دلوں میں نفرت، بغض اور تعصب کو جنم دیا۔ سابقہ برطانوی وزیراعظم اور سیاسی رہنما ولیم گلاڈسٹن(William Ewart Gladstone 1809-1898)نے ۱۸۸۲ء میں کہا تھا کہ جب تک قرآن موجود ہے، یورپ کے لیے مشرق کو مغلوب کرنا ممکن نہیں ہے،بلکہ قرآن کی موجودگی میں یورپ کے لیے اپنے آپ کو حالت امن میں محسوس کرنا بھی درست نہیں ہے۔ 45 الجزائر میں متعین فرانسیسی گورنر کا کہنا یہ تھا کہ ہمارے لیے لازم ہے کہ ہم ان کے وجود سے قرآن مجید کو کھرچ ڈالیں اور ان کی زبانوں سے عربی زبان کو اکھیڑ دیں تو اسی
Flag Counter