Maktaba Wahhabi

114 - 236
ہوتے ہوئے شاہ صاحب رحمہ اللہ نے اس مقصد کے لئے مدرسہ رحیمیہ کی مسند سے کام لیا۔ اس مدرسہ میں اساتذہ کی حیثیت مشین کی نہیں تھی۔ نہ طلبہ دساور کا مال تھا کہ منڈی سے نکلے اور بازار میں مہنگے سستے بک گئے۔ یہ مدرسہ ایک مکتب فکر تھا جس میں تصوف کے ساتھ سنت کو آمیز کرنے کی مشق ہوتی تھی۔ فقہ العراق کے ساتھ فقہ الحدیث کا امتزاج کیا جاتا تھا۔ بہ ظاہر یہ فقہ العراق کی ایک درسگاہ تھی۔ لیکن اس طرح کہ اس پر شیخ علی طاہر المدنی نے حدیث سے اس میں جِلا پیدا کر دیا تھا۔ وہاں بدعات کے خلاف خاموش جہاد تھا۔ فقہی جمود میں استنباط اور اجتہاد کی خوشگوار آمیزش ہو رہی تھی۔ یہ مدرسہ فکر بڑی سنجیدگی سے سنت اور فقہائے محدثین کے مسلک کی طرف ترقی کر رہا تھا۔ اس کے نام اور تلامذہ میں صاحب دراسات اللبیب تھے۔ شاہ عبد العزیز، شاہ عبد القادر، شاہ رفیع الدین اور شاہ عبد الغنی صاحب ایسے فحول اہل علم اس مدرسہ سے فیض یاب ہوئے۔ پھر ہر ایک اپنی اپنی جگہ امتِ واحدہ تھا۔ وہ اسی مسلک کے مبلغ تھے جو انہیں اپنے استاد محترم سے ملا تھا۔ ’’بعد ملاحظہ کتب مذاہب اربعہ واصول فقہ واحادیثے کہ متمسک است قرار داد خاطر بمدد نور غیبی روشنی فقہاء محدثین افتاد‘‘ (اتحاف النبلاء ص429) ترکِ تقلید اور اہل حدیث مدت سے یہ دونوں لفظ عوام کی زبان پر استعمال ہو رہے ہیں۔ اور انہیں عموماً مرادف سمجھا جاتا ہے۔ ہندوستان میں دونوں لفظ ائمہ اربعہ رحمہم اللہ اور ان کی طرف منسوب مسالک کی پابندی کے خلاف استعمال کیے گئے ہیں۔ حالانکہ امر واقعہ یہ ہےکہ جمود کی خالفت ان ائمہ کرام اور ان کے اتباع نے بھی کی ہے۔ اس کے بعد محقق اہل علم ائمہ اربعہ کے ساتھ عقیدت اور ان کے علوم سے استفادہ کے باوجود بعض فرعی مسائل میں ائمہ اجتہاد سے اختلاف کا اظہار بھی فرماتے رہے۔
Flag Counter