Maktaba Wahhabi

116 - 236
کمی بیشی ہو سکتی ہے نوعیت میں فرق نہیں۔ لفظ غیر مقلد کی ایجاد معلوم ہوتا ہے اس وقت غیر مقلد کا لفظ تو ایجاد ہی نہیں ہوا ہوگا یا پھر بطور طعن اس کا استعمال نہیں کیا گیا۔ ائمہ اسلام، صلحائے امت میں مروج نہیں ہوا تھا۔ یا کوئی سیاسی ضرورت ہی نہ تہی۔ جس کے لئے یہ لفظ ایجاد کیا جاتا۔ اسی طرح تقلید بھی کوئی قابل فخر لقب نہیں تھا۔ جس کے ترک کو عیب سمجھا جائے یا اس کے ترک پر کم از کم افسوس ہی کا اظہار کیا جائے۔ بلکہ ائمہ معقول فلاسفہ ومتکلمین کے نزدیک چونکہ منقولات کا مقام کسی طرح بھی ظن سے اونچا نہیں، اس لئے وہ ائمہ سنت کو، فقیہ ہوں یا غیر فقیہ، مجتہد ہوں یا غیر مجتہد ’’مقلد‘‘ کہتے ہیں اور حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ان کے ہاں دلیل کا انحصار صرف عقلیات پر ہے۔ امام غزالی رحمہ اللہ فیصل التفرقۃ بین الاسلام والزندقۃ میں معتزلہ اور اشاعرہ کے خیالات میں الزامی تقابل اور باہم اکفار وتکفیر کے تذکرۃ میں فرماتے ہیں: فإن تخبط في جواب هذا أو عجز عن كشف الغطاء فيه فاعلم أنه ليس من أهل النظر وإنما هو مقلد وشرط المقلد أن يسكت أو تسكت عنه  (ص18) ’’اگر کوئی ان الزامات کے جواب سے عاجز آجائے تو وہ مقلد ہے اور مقلد سے گفتگو کی بجائے خاموشی بہتر ہے۔‘‘ قرون خیر کے بعد عمل اور اعتقاد کی دنیا میں عجیب اضطراب معلوم ہوتا ہے۔ تقلید یا جمود تو کیا ہوگا اعتقاد اور فروع کے معاملہ میں فکر ونظر اور فقہ واجتہاد کئی مختلف گوشوں میں منقسم نظر آتے ہیں، مثلاً غسان بن ابان کوفی مرجیہ اور فرقہ غسانیہ کے پیشوا اور امام ہیں اور امام محمد بن حسن الشیبانی رحمہ اللہ کے شاگرد ہیں اور عجیب بات یہ ہے کہ حضرت عیسیٰؑ کی نبوت کے منکر ہیں (الخطط للمقریزی ج4 ص171) اور ایمان کی زیادت اور نقصان کے مسئلہ میں حضرت امام ابو حنیفہ کے ہم نوا ہیں یعنی ایمان کی زیادتی اور نقصان کے قائل نہیں۔
Flag Counter