Maktaba Wahhabi

122 - 236
قلّتِ علم تو بہرحال ملحوظ رہے گی۔ تقلید کی تعریف التقليد العمل بقول الغير من غير حجة (مسلم الثبوت ج2 ص350) التقليد العمل بقول غيرك من غير حجة (مختصر ابن حاجب ص231) التقليد هو قبول قول بلا حجة وليس من طريق العلم لا في الأصول ولا في الفروع (أصول فقه خضري ص457)  التقليد اعتقاد الشيء لأن فلانا قاله مما لم يقم على صحة قوله برهان (أحكام ابن حزم ص40) مذکورہ تعریفات سے فوائد قیود یا تحلیل نحوی مقصود نہیں۔ مطلوب صرف اس قدر ہے کہ تمام تعریفات میں قدرِ مشترک یہ ہے کہ تقلید بلا دلیل اطاعت اور اقتداء کا نام ہے جس میں علم واستدلال نظر وفکر کی جگہ صرف حُسنِ ظن کو دی گئی ہے اور یہ کہ علماء کی نظر میں یہ علم نہیں۔ ظاہر ہے کہ انسان کے قوام میں علم وتحقیق سمویا گیا ہے۔ لا علمی اور بلا سوچے سمجھے کسی کے پیچھے لگنا کوئی بھی پسند نہیں کرتا۔ ٹھیک اسی طرح غیر معلوم مسائل میں علماء کی طرف رجوع اور تحقیق اسے کوئی بھی ناپسند نہیں کرتا۔ شرک اور اس قسم کے الفاظ اسی وقت استعمال ہوں گے جب دلائل سے صرفِ نظر کر کے محفض حسنِ ظن پر اعتماد کیا جائے۔ اور ایسی باتوں کو دلیل سمجھا جائے جو حقیقت میں دلیل نہیں۔ اکر یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اشتراک نہیں تو اسے کیا کہا جائے۔ مروجہ مذاہب کی فقہیات میں ایسے مسائل رواج پا گئے ہیں جن کی دلائل سے تائید نہیں ہوتی۔ حُسنِ ظن یا مفروضہ پابندی کی وجہ سے وہ مسائل مسلّمہ اور معمول بہا ہوگئے ہیں۔ مثلاً موالک کے نزدیک نماز میں کھلے ہاتھ چھوڑنا، شوافع کے نزدیک ایسی لڑکی سے نکاح جو ناکح کی اخلاقی کمزوری کا نتیجہ ہو، احناف کے نزدیک قنوت وتر کا وجوب، خمر سے سرکہ بنانے کی اجازت، رضاع کی مدّت اڑھائی سال۔ ان جزئیات میں ہر فریق کی موشگافیاں معلوم ہیں۔ مگر صحیح ہے ان کے متعلق کوئی نص موجود نہیں۔ دینی علماء کے خود صخاتہ قواعد یا ان پر حسنِ ظن ہی کی بناء پر یہ مسائل مروّج ہوکئے ہیں اور الزامات اور مناظرانہ لطائف ضرور کتابوں میں ملتے ہیں۔
Flag Counter