علامہ مرغینانی صاحب ہدایہ، علامہ کاسانی مؤلف البدائع والصنائع اور علامہ سرخسی، قاضی خان، نسفی، ابن قدامہ، ابن تیمیہ، علامہ ابو اسحاق، ابراہیم بن علی بن یوسف صاحب مہذب، اسی طرح زرقانی اور باجی، ابن رشد، شاطبی وغیرہم سب اپنے ائمہ کے مذاہب کو روایت اور درایت کی روشنی میں ثابت کرتے ہیں۔ ان کے طریقِ استدلال سے اختلاف کیا جا سکتا ہے مگر ان کے محقق ہونے میں شبہ نہیں کیا جا سکتا۔ اس روش کے بعد انہیں اصطلاحاً مقلد جیسے کہا جائے۔ یہ تعریف ان پر کیسے صادق آتی ہے؟ محترم مضمون نگار مولانا عثمانی نے تقلید ثابت کرنے کے لئے ترکِ تقلید کی راہ اختیار فرمائی ہے۔ اس سے سوال پیدا ہوتا ہے کہ تقلید کہاں ہے؟ اہلحدیث یا مخالفین تقلید جو لوگ ترکِ تقلید کے مدعی ہیں یا انہیں غیر مقلد، لا مذہب یا وہابی کہا جاتا ہے۔ آپ حضرات اور ان کی روش میں قطعاً کوئی فرق نہیں وہ اپنے موقف کی حمایت روایت اور درایت سے فرماتے ہیں آپ اپنے موقف کی کی۔ عملاً کوئی امتیاز نہیں۔ فقہائے محدثین ائمہ، درایت، حفّاظ حدیث، ائمہ اصول سب ان کے خوشہ چین ہیں ان کے علوم سے استفادے کے سوا کسی کو بھی چارہ نہیں۔ پھر آپ مقلد ہیں اور وہ غیر مقلد معاملہ منکر مے بودن وہم رنگِ مستاں زیستن کا ہے۔ ایک عقیدتمند دریافت کرتا ہے کہ یہ تقلید کہاں ہے؟ آپ نے لفظ تقلید کے متعلق فرمایا ہے کہ اس کا استعمال برمحل نہیں لیکن واقعہ یہ ہے کہ پوری اصطلاح ہی بے محل ہے۔ کیونکہ تقلید کی تعریف میں تو عدم علم بطور جز موجود ہے اور اس کی تصریح ائمہ کے ارشادات میں موجود ہے۔ ابن قیم فرماتے ہیں: قال أبو عمرو وغيره من العلماء أجمع الناس على أن المقلد ليس معدوداً من أهل العلم وإن العلم معرفة الحق بدليله وهذا كما قال أبو عمرو رحمه الله فإن الناس لا يختلفون أن العلم المعرفة الحاصلة عن الدليل أما بدون الدليل فإنما هوالتقليد (اعلام الموقعین طبع دہلی ص4 ج1) |
Book Name | تحریکِ آزادی فکراور حضرت شاہ ولی اللہ کی تجدیدی مساعی |
Writer | شیخ الحدیث مولانا محمد اسمعٰیل صاحب سلفی |
Publisher | مکتبہ نذیریہ، چیچہ وطنی |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 236 |
Introduction | تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ کی تجدید مساعی کے نام سے مولانا اسماعیل سلفی رحمہ اللہ کے مختلف اوقات میں لکھے جانے والے مضامین کا مجموعہ ہے جس میں انہوں نے شاہ ولی اللہ کے مشن کی ترجمانی کرتے ہوئے مختلف مکاتب فکر کو قرآن وسنت کی طرف دعوت دینے کی کوشش کی ہے-شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے جس دور میں قرآن وسنت کی بالادستی کی فکر کو پیش کیا وہ دور بہت کٹھن دور تھا اور شاہ ولی اللہ کی تحریک کے مقابلے میں تمام مذاہب کے افراد نے رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش کی-تقلید جامد کے ماحول میں اجتہاد کے ماحول کو پیدا کرنا اور لوگوں کو مختلف ائمہ کے فہم کے علاوہ کسی بات کو قبول نہ کرنے کی فضا میں قرآن وسنت کی بالادستی کا علم بلند کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا-شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ تعالی نے اس دور میں اجتہاد،قرآن وسنت کی بالادستی،مختلف ائمہ کی فقہ کی ترویج اور لوگوں میں پائی جانے والی تقلید کی قلعی کو کھولتے ہوئے ان تمام چیزوں کی طرف واضح راہنمائی فرمائی-مصنف نے اپنی کتاب میں تحریک اہل حدیث کی تاریخ،اسباب،اور تحریک کے مشن پر روشنی ڈالتے ہوئے مختلف علماء کے فتاوی کو بھی بیان کیا ہے-تقلید کا مفہوم،اسباب اور تقلید کے وجود پر تاریخی اور شرعی اعتبار سے گفتگو کرتے ہوئے مختلف فقہی مسائل کو بیان کر قرآن وسنت کی کسوٹی پر پرکھ کر ان کی حقیقت کو بھی واضح کیا گیا ہے- |