ہے کہ وہ متون اور شروح میں اپنے مسلک کی حمایت کرتے ہوئے قرآن اور سنت سے استدلال فرماتے ہیں۔ بعض مقامات پر جب ائمہ کی بعض تصریحات کو قرآن یا سنت کے خلاف پاتے ہیں تو پوری جرات سے تصریحات ائمہ سے اختلاف کرتے ہیں۔ امام محمد، امام ابو یوسف، حسن بن زیادہ وغیرہ تلامذہ سرخسی، طحاوی رحمہم اللہ کی کتابوں میں ایسا مواد بکثرت موجود ہے جس میں اختلاف کر کے اپنی راہ الگ اختیار کی گئی ہے۔ کہیں نصوص کے فہم میں اپنے امام کی رائے کو معیا رسمجھتے ہیں۔ اس کے بالمقابل دوسرے امام کی رائے کی کچھ پروا نہیں کرتے۔ حالانکہ وہ مجتہد ہیں۔ یہ جرات تو تحقیق ہی کی بناء پر ہوسکتی ہے۔ شروح حدیث میں اور متون فقہ کی شروح میں وہ پوری تحقیق کی داد دیتے ہیں۔ فریقِ مخالف پر الزامات اور معارضات کی بھرمار کرتے ہیں۔ یہ تحقیق ہے یا تقلید؟ اس کا تو یہی مطلب ہوگا کہ ان حضرات کو عالم ہونے کے باوجود اپنے علم پر بدگمانی ہے۔ وہ تقلید کی دلدل سے نکلنے کی جرات نہیں فرماتے یا علم وفہم کو تقلید کا نام دے کر عوام کو مطمئن کرنا چاہتے ہیں۔ غرض تقلید کے مصطلح کے لحاظ سے تو ان حضرات کو مقلد کہنا مشکل معلوم ہوتا ہے۔ تقلید کہاں؟ ائمہ اجتہاد کو تقلید کی ضرورت نہ تھی۔ ان کا مقام تقلید کے بندھنوں سے بہت اونچا ہے۔ عامی ویسے محروم ہے۔ اس کے متعلق فرمایا گیا ہے: العامي لا مذهب له شامی فرماتے ہیں: قلت وأيضا قالوا العامي لا مذهب له بل مذهبه مذهب فقيه وعلله صاحب التحرير بأن المذهب إنما يكون لمن له نوع نظر واستدلال وبصر بالمذاهب على حسبه. الخ (رد المختار ص294 ج4) عامی کا کوئی مذہب نہیں۔ اس کا مذہب اپنے مفتی یا شہر کے امام کا مذہب ہوگا۔ در اصل تقلید تو وہ کرے گا جسے تھوڑی بہت بصیرت ہو۔ مذہب کی چھوٹی بڑی کتاب پڑھا ہوا ہو۔ کم علم طبقہ جسے فقہیات ائمہ سے شد بد ہو وہ فقہ ائمہ کی معمولی واقفیت رکھتے ہوں۔ متون اور بعض متعارف مسائل کو جانتا ہو۔ یا |
Book Name | تحریکِ آزادی فکراور حضرت شاہ ولی اللہ کی تجدیدی مساعی |
Writer | شیخ الحدیث مولانا محمد اسمعٰیل صاحب سلفی |
Publisher | مکتبہ نذیریہ، چیچہ وطنی |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 236 |
Introduction | تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ کی تجدید مساعی کے نام سے مولانا اسماعیل سلفی رحمہ اللہ کے مختلف اوقات میں لکھے جانے والے مضامین کا مجموعہ ہے جس میں انہوں نے شاہ ولی اللہ کے مشن کی ترجمانی کرتے ہوئے مختلف مکاتب فکر کو قرآن وسنت کی طرف دعوت دینے کی کوشش کی ہے-شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے جس دور میں قرآن وسنت کی بالادستی کی فکر کو پیش کیا وہ دور بہت کٹھن دور تھا اور شاہ ولی اللہ کی تحریک کے مقابلے میں تمام مذاہب کے افراد نے رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش کی-تقلید جامد کے ماحول میں اجتہاد کے ماحول کو پیدا کرنا اور لوگوں کو مختلف ائمہ کے فہم کے علاوہ کسی بات کو قبول نہ کرنے کی فضا میں قرآن وسنت کی بالادستی کا علم بلند کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا-شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ تعالی نے اس دور میں اجتہاد،قرآن وسنت کی بالادستی،مختلف ائمہ کی فقہ کی ترویج اور لوگوں میں پائی جانے والی تقلید کی قلعی کو کھولتے ہوئے ان تمام چیزوں کی طرف واضح راہنمائی فرمائی-مصنف نے اپنی کتاب میں تحریک اہل حدیث کی تاریخ،اسباب،اور تحریک کے مشن پر روشنی ڈالتے ہوئے مختلف علماء کے فتاوی کو بھی بیان کیا ہے-تقلید کا مفہوم،اسباب اور تقلید کے وجود پر تاریخی اور شرعی اعتبار سے گفتگو کرتے ہوئے مختلف فقہی مسائل کو بیان کر قرآن وسنت کی کسوٹی پر پرکھ کر ان کی حقیقت کو بھی واضح کیا گیا ہے- |