مدرسین کی مختصر سی تعداد جو مدارس میں پڑھاتے ہیں ان کو مناسب استعداد بھی ہے لیکن ان کو یقین دلایا گیا ہے کہ ائمہ اربعہ کے بعد تم ماخذ دین سے استدلال اور اخذ کا حق نہیں۔ تم اپنے علم کو لا علمی سے تعبیر کرو۔ اور مقلد کہلاؤ۔ ان کی تعداد پانچ فی ہزار بھی شاید نہ ہو۔ یہی بیچارے تقلید کی تجربہ گاہ ہوں گے۔ اس کا نتیجہ بھی یہی ہوگا کہ یہ چند سو یا چند ہزار آدمی مقلد کہلا سکیں گے۔ اور ایک طالب علم ادب سے دریافت کرے گا کہ تقلید پر اجماع کب ہوا، جس نے کیا، کہاں کیا؟ اور ایک ایسی چیز جس کا خارجی وجود ہی عدم کی سرحدوں سے مل رہا جس سے علماء اور عامی دونوں محروم ہوں کہاں ہے۔ یہ علم وعرفان کا ایسا گوشہ جس کی فحول اہل علم کو تو ضرورت ہے نہیں، عوام کی رسائی سے اس کا مقام ویسے ہی الگ ہے اجماعی وجوب کا اثر کونسی مخلوق پر پڑے گا۔ اگر اس کا انکار کر دیا جائے تو لوگ اس سے کہاں تک متاثر ہوں گے۔ مجتہد اور عامی اگر اس کے اثر سے بچ نکلیں تو اس کا حلقۂ اثر کہاں تک وسیع ہوتا اور پھر یہ وجوب شرعی ہوتا یا اضطراری؟ معنیٰ میں لچک خیال تھا کہ مولانا نے لفظ تقلید میں جس طرح لچک پیدا فرمائی ہے، ان کا ذہن بھی کچھ اپنی جگہ سے سرک کر حالات کی سازگاری میں تعاون کرے گا۔ مولانا کے ارشادات میں وہی مناظرانہ تشدد ہے جو عموماً ہمارے علماء کا شیوہ ہے۔ علماء ایک طبعہ تقلید کو بدعت کہتا ہے، مولانا اسے واجب فرماتے ہیں۔ اتفاق کہا ہوگا؟ آسان اور مشکل اس کے بعد کئی صفحات میں مولانا نے فرمایا ہے کہ آسان مسائل میں تو تقلید کی ضرورت نہیں، لیکن مشکل ذو الوجوء مسائل میں تقلید کے سوا چارہ نہیں۔ اسی ضمن میں مولانا کا ایک فقرہ عجیب ہے: ’’ان تمام معاملات میں اطاعت خالصتاً اللہ اور رسول کی کرنی ہے۔ اور جو رسول کی بجائے کسی اور کی اطاعت کرنے کا قائل ہو اور اس کو مستقل بالذات مطاع سمجھتا ہو تو وہ یقیناً دائرۂ اسلام سے خارج ہے۔‘‘ |
Book Name | تحریکِ آزادی فکراور حضرت شاہ ولی اللہ کی تجدیدی مساعی |
Writer | شیخ الحدیث مولانا محمد اسمعٰیل صاحب سلفی |
Publisher | مکتبہ نذیریہ، چیچہ وطنی |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 236 |
Introduction | تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ کی تجدید مساعی کے نام سے مولانا اسماعیل سلفی رحمہ اللہ کے مختلف اوقات میں لکھے جانے والے مضامین کا مجموعہ ہے جس میں انہوں نے شاہ ولی اللہ کے مشن کی ترجمانی کرتے ہوئے مختلف مکاتب فکر کو قرآن وسنت کی طرف دعوت دینے کی کوشش کی ہے-شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے جس دور میں قرآن وسنت کی بالادستی کی فکر کو پیش کیا وہ دور بہت کٹھن دور تھا اور شاہ ولی اللہ کی تحریک کے مقابلے میں تمام مذاہب کے افراد نے رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش کی-تقلید جامد کے ماحول میں اجتہاد کے ماحول کو پیدا کرنا اور لوگوں کو مختلف ائمہ کے فہم کے علاوہ کسی بات کو قبول نہ کرنے کی فضا میں قرآن وسنت کی بالادستی کا علم بلند کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا-شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ تعالی نے اس دور میں اجتہاد،قرآن وسنت کی بالادستی،مختلف ائمہ کی فقہ کی ترویج اور لوگوں میں پائی جانے والی تقلید کی قلعی کو کھولتے ہوئے ان تمام چیزوں کی طرف واضح راہنمائی فرمائی-مصنف نے اپنی کتاب میں تحریک اہل حدیث کی تاریخ،اسباب،اور تحریک کے مشن پر روشنی ڈالتے ہوئے مختلف علماء کے فتاوی کو بھی بیان کیا ہے-تقلید کا مفہوم،اسباب اور تقلید کے وجود پر تاریخی اور شرعی اعتبار سے گفتگو کرتے ہوئے مختلف فقہی مسائل کو بیان کر قرآن وسنت کی کسوٹی پر پرکھ کر ان کی حقیقت کو بھی واضح کیا گیا ہے- |