Maktaba Wahhabi

129 - 236
اور ہمیشہ کے لئے جنگ شروع ہوگئی۔ کتب فقہ، ان کے شروح اور حواشی میدان کار زار بن گئے۔ قرآن کی خدمت وسنت کی توضیحات میں کچھ اضافہ ہوا نہ لغت کو اضداد کے متعلق کوئی اصول مل سکا۔ آسان مقامات میں تقلید کی ضرورت نہ تھی۔ یہ نسخہ بیکار تھا۔ مشکل میں جنگ بدستور جاری رہی۔ اس کوہ کنی وکامبر آری سے کچھ بھی فائدہ نہ ہوا۔ اگر انصاف اور حق پسندی سے کام لیا جائے تو ساری کوشش اکارت اور محنت بیکار گئی۔ جنگ بدستور رہی اور میدانِ وفا میں صلح کی کوئی صورت نہ نکل سکی۔ بالکل یہی حال اس جنگ کا مغایرہ اور سورہ فاتحہ کے وجوب اور فرضیت کا رہا۔ نزاع وہیں کی وہیں رہی۔ تقلید اور ترکِ تقلید نتائج کے لحاظ سے یکسان اور برابر رہا۔ اگر تقلید سے اختلاف ختم ہو سکتا تھا تو پہر آپ حضرات ان مورچوں میں کیوں تن گئے۔ ع رشتۂ الفت میں اگر ان کو پروسکتا تھا تو منتشر کیوں پھر تیری تسبیح کے دانے رہے مولانا یقین فرمائیں محفض علماء سے استصواب ان کی آراء کو نصوص کی روشنی میں قبول کرنے کو نہ کوئی شرک کہتا ہے نہ گناہ۔ بحث اس وقت ہوتی ہے جس کسی عالم کے فہم کو واجب الاتباع قرار دیا جائے اور اس سے اختلاف کو شرعاً حرام قرار دیا جائے حتیٰ کہ عالم اور مجتہد سے تعلق توڑ لیا جائے۔ عملاً مرتبۂ رسالت سے کون سی کمی رہ جاتی ہے۔ تقلید مطلق اور شخصی مولانا نے یہاں تقلید کی دو قسمیں بیان فرمائی ہیں۔ ہر قسم کو ثابت کرنے کے لئے تقلید کی حدود سے عبور فرمانا پڑا ہے۔ ہم حضرت مولانا کی اس جرات پر ان کے شکر گزار ہیں اور سوچتے ہیں کہ تقلید کہاں ہے؟ بڑے ادب سے گزارش ہے کہ جناب جسے تقلید مطلق یا تقلید عام فرماتے ہیں یہ قطعاً متنازعہ فیہ نہیں جس کے لئے جناب فکر ونظر کی تکلیف فرماتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر شاگرد اُستاد سے متاثر ہوتا ہے اور ہر بے علم یا کم علم کو کسی عالم کی طرف توجہ
Flag Counter