آپ ایسے اہل علم قطعاً جانتے ہیں یہ مصطلح تقلید سے بالکل مختلف ہے۔ اس تقلید میں ایک عامی، مجتہد پر تنقید اور اس کی روش پر اسے ٹوک سکتا ہے۔ کاش! جناب نے اصلاح کے لئے جب قدم اٹھایا ہے تو پرانی مناظرانہ راہوں سے مختلف راہ اختیار فرماتے۔ وہی پرانی اور روندی ہوئی راہیں، وہی لقمے جو بارہا چبائے جا چکے ہیں چبائے جا رہے ہیں۔ تقلید مطلق کی مثالیں جناب کا یہ ارشاد درست ہے۔ تقلید عام کی ایسی مثالوں سے جناب مستقل کتاب تیار فرما سکتے ہیں مگر ادباً گزارش ہے کہ ایسی کتاب کی بازار میں دوکوڑی قیمت نہیں ہوکی۔ جناب کے ارشاد فرمودہ چار دلائل کا تفصیلاً علمی محاسبہ کیا جائے تو آخر اس میں کیا ہے؟ فقیہ اور غیر فقیہ صحابی اسی طرح صحابہ میں فقیہ اور غیر فقیہ کی تقسیم شرمناک ہے اور صحابہ کے متعلق ایسے خیالات کا اظہار رفض اور تشیع کا بقیہ ہے۔ ائمہ اصول نے قاضی عیسیٰ بن ابان کے اسی نظریہ کی تائید فرما کر اعتزال اور رفض کی حوصلہ افزائی فرمائی ہے۔ اس کے بالمقابل علامہ سرخسی کی رائے محقق اور درست ہے۔ کشف الاسرار اور غایۃ التحقیق شرح حسامی میں اس مقام کو ملاحظ فرمائیں۔ اصول کے طلبہ کو اس سوء ادب پر متنبہ فرمائیں۔ آپ حضرات اپنے مصارف پر مدارس میں اعتزال اور رفض کی آبیاری فرماتے ہیں۔ قرآن عزیز کا یہ ارشاد درست ہے: وفوق كل ذي علم عليم (يوسف) صحابہ بھی اس سے مستثنیٰ نہیں وہ حضرات بلا تخصیص عالم اعلم کی طرف اور مفضول افضل کی طرف رجوع فرماتے۔ بعض اوقات بحث ونظر میں محض توجہ سے ذہن صاف ہوجاتا۔ ذہول دور ہوجاتا۔ بات طویل نہ ہونے پاتی۔ بعض اوقات بحث ونظر کی نوبت آتی۔ حوالہ دینے کے بغیر مسئلہ صاف نہ ہوتا۔ آب نے کسی قدر غلط فرمایا: ’’اور شائد کوئی ایک واقعہ بھی ایسا نہ ہو جس میں انہوں نے مسئلہ کی دلیل پوچھی ہو۔‘‘ کوئی پڑھا لکھا طالب علم جس کی دواوین سنت پر نظر ہو یہ جرات نہیں کر سکتا جو جناب نے فرمائی۔ فاطمہ بنت |
Book Name | تحریکِ آزادی فکراور حضرت شاہ ولی اللہ کی تجدیدی مساعی |
Writer | شیخ الحدیث مولانا محمد اسمعٰیل صاحب سلفی |
Publisher | مکتبہ نذیریہ، چیچہ وطنی |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 236 |
Introduction | تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ کی تجدید مساعی کے نام سے مولانا اسماعیل سلفی رحمہ اللہ کے مختلف اوقات میں لکھے جانے والے مضامین کا مجموعہ ہے جس میں انہوں نے شاہ ولی اللہ کے مشن کی ترجمانی کرتے ہوئے مختلف مکاتب فکر کو قرآن وسنت کی طرف دعوت دینے کی کوشش کی ہے-شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے جس دور میں قرآن وسنت کی بالادستی کی فکر کو پیش کیا وہ دور بہت کٹھن دور تھا اور شاہ ولی اللہ کی تحریک کے مقابلے میں تمام مذاہب کے افراد نے رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش کی-تقلید جامد کے ماحول میں اجتہاد کے ماحول کو پیدا کرنا اور لوگوں کو مختلف ائمہ کے فہم کے علاوہ کسی بات کو قبول نہ کرنے کی فضا میں قرآن وسنت کی بالادستی کا علم بلند کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا-شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ تعالی نے اس دور میں اجتہاد،قرآن وسنت کی بالادستی،مختلف ائمہ کی فقہ کی ترویج اور لوگوں میں پائی جانے والی تقلید کی قلعی کو کھولتے ہوئے ان تمام چیزوں کی طرف واضح راہنمائی فرمائی-مصنف نے اپنی کتاب میں تحریک اہل حدیث کی تاریخ،اسباب،اور تحریک کے مشن پر روشنی ڈالتے ہوئے مختلف علماء کے فتاوی کو بھی بیان کیا ہے-تقلید کا مفہوم،اسباب اور تقلید کے وجود پر تاریخی اور شرعی اعتبار سے گفتگو کرتے ہوئے مختلف فقہی مسائل کو بیان کر قرآن وسنت کی کسوٹی پر پرکھ کر ان کی حقیقت کو بھی واضح کیا گیا ہے- |