4. حضرت زید آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ، حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان کے براہ راست شاگرد تھے۔ 5. حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ، حضرت انس رضی اللہ عنہ ، ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ ، سہیل بن حنیف رضی اللہ عنہ ، طاؤس، عطاء بن یسار ایسے صحابہ اور تابعی ان کے شاگرد تھے۔ 6. سعید بن مسیب فرماتے ہیں: زید بن ثابت کے جنازہ میں حاضر ہوا۔ جب انہیں قبر میں رکھا گیا تو ابن عباس نے فرمایا جو علم کے فقدان کا منظر دیکھنا چاہئے وہ یہ نظارہ دیکھ لے۔ آج علم کی کثیر مقدار دفن کر دی گئی۔ ان کی موت کے دن حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا آج اس وقت کا عالم فوت ہوگیا۔ ممکن ہے اس خلا کو ابن عباس رضی اللہ عنہ پورا کر سکیں (تہذیب التہذیب صفحہ 399 ج3) زید بن ثابت کے ہوتے ہوئے اہل مدینہ کا ابن عباس کے متعلق تامل قدرتی تھا۔ آپ نے اسے تقلید بنا دیا۔ دوسری دلیل مولانا نےتقلید شخصی کی دلیل حضرت ابو موسیٰ اشعری کا ارشاد ذکر کیا ہے جو انہوں نے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے متعلق فرمایا:لا تسألوني ما دام هذا الخبر فيكم ان الفاظ کا ترجمہ یہ ہے کہ ’’جب تک عبد اللہ بن مسعود موجود ہوں۔ مجھ سے کوئی مسئلہ مت پوچھو۔‘‘ مولانا نے اس کا مطلب یہ فرمایا ہے کہ ’’انہوں نے ہر مسئلہ میں عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی طرف رجوع کرنے کا مشورہ دیا۔‘‘ مولانا غور فرمائیں۔ عبارت سے یہ مفہوم بالکل سمجھ نہیں آتا۔ یہ تو درست ہے کہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی موجودگی میں حضرت ابو موسیٰ سے نہ پوچھا جائے۔ لیکن ہر مسئلہ عبد اللہ بن مسعود ہی سے پوچھا جائے اور کسی عالم سے نہ پوچھا جائے بڑی سطحی بات ہے۔ حضرت ابو موسیٰ سے ایسا فرمانے کی اُمید ہی نہیں کی جاسکتی۔ اس وقت اکابر صحابہ موجود تھے وہ ان کی طرف رجوع سے کیسے روک سکتے تھے۔ غایت یہی ہو سکتی ہے کہ افضل کے ہوتے مفضول کی طرف رجوع نہ کیا جائے ہر مسئلہ اور صرف ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی تخصیص پوری عبارت میں قطعاً نہیں۔ مولانا کا اجتہاد ہو سکتا ہے |
Book Name | تحریکِ آزادی فکراور حضرت شاہ ولی اللہ کی تجدیدی مساعی |
Writer | شیخ الحدیث مولانا محمد اسمعٰیل صاحب سلفی |
Publisher | مکتبہ نذیریہ، چیچہ وطنی |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 236 |
Introduction | تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ کی تجدید مساعی کے نام سے مولانا اسماعیل سلفی رحمہ اللہ کے مختلف اوقات میں لکھے جانے والے مضامین کا مجموعہ ہے جس میں انہوں نے شاہ ولی اللہ کے مشن کی ترجمانی کرتے ہوئے مختلف مکاتب فکر کو قرآن وسنت کی طرف دعوت دینے کی کوشش کی ہے-شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے جس دور میں قرآن وسنت کی بالادستی کی فکر کو پیش کیا وہ دور بہت کٹھن دور تھا اور شاہ ولی اللہ کی تحریک کے مقابلے میں تمام مذاہب کے افراد نے رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش کی-تقلید جامد کے ماحول میں اجتہاد کے ماحول کو پیدا کرنا اور لوگوں کو مختلف ائمہ کے فہم کے علاوہ کسی بات کو قبول نہ کرنے کی فضا میں قرآن وسنت کی بالادستی کا علم بلند کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا-شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ تعالی نے اس دور میں اجتہاد،قرآن وسنت کی بالادستی،مختلف ائمہ کی فقہ کی ترویج اور لوگوں میں پائی جانے والی تقلید کی قلعی کو کھولتے ہوئے ان تمام چیزوں کی طرف واضح راہنمائی فرمائی-مصنف نے اپنی کتاب میں تحریک اہل حدیث کی تاریخ،اسباب،اور تحریک کے مشن پر روشنی ڈالتے ہوئے مختلف علماء کے فتاوی کو بھی بیان کیا ہے-تقلید کا مفہوم،اسباب اور تقلید کے وجود پر تاریخی اور شرعی اعتبار سے گفتگو کرتے ہوئے مختلف فقہی مسائل کو بیان کر قرآن وسنت کی کسوٹی پر پرکھ کر ان کی حقیقت کو بھی واضح کیا گیا ہے- |