Maktaba Wahhabi

139 - 236
جب تک ہر مسئلہ اور ابن مسعود کی علی الاطلاق تخصیص ثابت نہ ہو تقلید شخصی کا اثبات مشکل ہے۔ پھر اس وقت کی روش یہ معلوم ہوتی ہے کہ بلا تقلید اور بلا تعیین علماء سے مسائل دریافت فرمائے جاتے۔ چنانچہ انہوں نے حسب عادت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ کی طرف بھی رجوع فرمایا اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی طرف بھی اور یہی عامی کا فرض ہے کہ وہ بلا تخصیص علماء کی طرف رجوع کرے اور علماء بلا تعیین انہیں اعلم اور افضل کے پاس بھیج دیں۔ پھر یہاں بھی عبد اللہ بن مسعود کے قول کو اس لئے ترجیح دی گئی کہ انہوں نے حدیث ذکر فرمائی۔ رائے کا سوال ہی نہیں۔ فرمائیے یہ تقلید کے لئے کیسی دلیل بنی؟ مولانا آپ ایک دار العلوم کے مدرس ہیں آپ کو ایسی کچی باتیں نہیں کہنی چاہئیں۔ نیز اس پر بھی غور فرمائیں کہ اگر زمانہ صحابہ میں عبد اللہ بن مسعود اور زید بن ثابت ایسے ائمہ اجتہاد موجود ہیں تو پھر انہیں اس کے اس مقام سے کس نے معزول کیا اور ان کی جگہ ائمہ اربعہ کو کس پیغمبر نے دی؟ صحابہ کا مقام تو ہر لحاظ سے اونچا سمجھنا چاہئے۔ کیا مجتہدین صحابہ کا مقام ائمہ اربعہ سے کم ہے؟ تیسری دلیل حضرت مولانا نے حضرت معاذ بن جبل کی اس گفتگو سے استدلال فرمایا جو انہوں نے یمن جاتے وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمائی۔ یقیناً اس میں قاضی کے لئے بہترین رہنمائی ہے۔ حُکّام اور قضاۃ کے لئے یہ عظیم الشان اساس ہے لیکن تقلید کے لئے اس میں کوئی مقام نہیں۔ آپ غور فرمائیں اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو اس لئے یمن بھیجتے کہ اہل یمن انہیں مجتہد سمجھ کر ان کی تقلید کریں تو ان سے اس دریافت کی ضرورت نہ تھی کہ آپ فیصلہ کیسے کریں گے بلکہ حضرت معاذ کو ایک سرکاری دستاویز عنایت فرماتے کہ مجتہد صاحب تمہارے پاس تشریف لا رہے ہیں۔ تم سب ان کی تقلید کرنا۔ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد اس سے بالکل مختلف ہے، حضرت فرماتے ہیں: عن معاذ أن رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم لما بعثه إلى اليمن قال: كيف تصنع إن عرض لك قضاء قال أقضي بما في كتاب الله قال فإن لم يكن في كتاب الله قال فبسنة رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم قال فإن لم يكن في سنة رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم قال أجتهد برأيي ولا آلوا قال فضرب رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم علىٰ
Flag Counter