علمائے کرام اُمت کی مشترکہ امانت ہیں۔ اُن کے متعلق بد گوئی، بدزبانی کسی قیمت پر برداشت نہیں ہونی چاہئے۔ آج مدرسہ دیوبند کے مولانا انظر غالباً سید انوار شاہ رحمہ اللہ کے لخت جگر ائمہ حدیث کے مقام کی رفعتوں کو خاک میں ملانے کا شغل فرما رہے ہیں۔ یہ علامہ زاہد کوثری مرحوم کا بویا ہوا بیج ہے جسے پالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ کافی عرصہ سے دیوبند کے اکابر اور اصاغر مشق ستم میں مشغول ہیں۔ جس کا نتیجہ منکرینِ حدیث کی تائید کے سوا کچھ نہیں۔ ہمارے ہاں پاکستان کے بعض نو آموز مصنفین اسی بدزبانی کی سنت کا احیاء کر رہے ہیں۔ حوالوں میں قطع وبرید اور بد زبانی یہی ان کے خصائص ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان حضرات کو اصلاح کی توفیق بخشے۔ اس کے بعد مولانا نے چند مسائل کا ذکر فرمایا ہے۔ بہتر تھا مولانا اصول تک محدود رہتے اور فرعی مسائل کو ذکر نہ فرماتے۔ یہ فروع غمازی کر رہے ہیں کہ ایں محترم ان دیرینہ مباحث کو زندہ فرمانا چاہتے ہیں جن پر عرصہ تک طبع آزمائی ہوتی رہی ہے۔ پہلا مسئلہ مولانا نے پہلا مسئلہ نماز میں ہاتھ باندھنے کا ذکر فرمایا ہے جس میں ائمہ اجتہاد نے تین راہیں اختیار فرمائی ہیں 1. ناف کے اوپر باندھنا (اہل حدیث اور شوافع) 2. ہاتھ کھلے رکھنا (موالک) 3. ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا (احناف) جہاں تک میرا ناقص مطالعہ ہے نماز تینوں طرح ہوجاتی ہے۔ موالک کے عمل کی تائید کسی حدیث سے نہیں ہوتی۔ خود امام مالک رحمہ اللہ نے موطا میں ہاتھ باندھنے کی حدیث کا ذکر فرمایا ہے۔ یہ بھی صحیح طور پر معلوم نہیں ہو سکا کہ موالک میں ہاتھ کھلے رکھنے کا رواج کیسے ہوا۔ میرے علم میں موالک کے اس عمل کو خود ساختہ نہیں کبھی نہیں کہا گیا۔ احناف کے اس عمل کو کسی نے خود ساختہ کہا ہو میرے علم میں نہیں۔ یہ درست ہے کہ سینے پر ہاتھ باندھنے کو مسلک اہل حدیث میں راجح سمجھا گیا ہے۔ جس حدیث سے مولانا نے ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کے لئے استدلال فرمایا ہے۔ یہ بالاتفاق ضعیف ہے۔ مولانا نے بھی اس کے ضعف کو قریباً تسلیم |
Book Name | تحریکِ آزادی فکراور حضرت شاہ ولی اللہ کی تجدیدی مساعی |
Writer | شیخ الحدیث مولانا محمد اسمعٰیل صاحب سلفی |
Publisher | مکتبہ نذیریہ، چیچہ وطنی |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 236 |
Introduction | تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ کی تجدید مساعی کے نام سے مولانا اسماعیل سلفی رحمہ اللہ کے مختلف اوقات میں لکھے جانے والے مضامین کا مجموعہ ہے جس میں انہوں نے شاہ ولی اللہ کے مشن کی ترجمانی کرتے ہوئے مختلف مکاتب فکر کو قرآن وسنت کی طرف دعوت دینے کی کوشش کی ہے-شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے جس دور میں قرآن وسنت کی بالادستی کی فکر کو پیش کیا وہ دور بہت کٹھن دور تھا اور شاہ ولی اللہ کی تحریک کے مقابلے میں تمام مذاہب کے افراد نے رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش کی-تقلید جامد کے ماحول میں اجتہاد کے ماحول کو پیدا کرنا اور لوگوں کو مختلف ائمہ کے فہم کے علاوہ کسی بات کو قبول نہ کرنے کی فضا میں قرآن وسنت کی بالادستی کا علم بلند کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا-شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ تعالی نے اس دور میں اجتہاد،قرآن وسنت کی بالادستی،مختلف ائمہ کی فقہ کی ترویج اور لوگوں میں پائی جانے والی تقلید کی قلعی کو کھولتے ہوئے ان تمام چیزوں کی طرف واضح راہنمائی فرمائی-مصنف نے اپنی کتاب میں تحریک اہل حدیث کی تاریخ،اسباب،اور تحریک کے مشن پر روشنی ڈالتے ہوئے مختلف علماء کے فتاوی کو بھی بیان کیا ہے-تقلید کا مفہوم،اسباب اور تقلید کے وجود پر تاریخی اور شرعی اعتبار سے گفتگو کرتے ہوئے مختلف فقہی مسائل کو بیان کر قرآن وسنت کی کسوٹی پر پرکھ کر ان کی حقیقت کو بھی واضح کیا گیا ہے- |