Maktaba Wahhabi

163 - 236
ضعیف آثار پر ہے۔اس لیے اہل حدیث کا مسلک بلحاظ سندراجح ہے لیکن اسی مقام پر بعض حضرات بے حد غلو کرتے ہیں۔اور یہ غلو دونوں طرف سے ہو رہا ہے۔جس کی اصلاح کی ضروری ہے۔تحت السرہ کے قائلین بعض حضرات ہاتھوں کو اس قدر لٹکا دیتے ہیں کہ  تحت السرہ کی بجاےٓ فوق العانہ کی صورت اختیار کر لیتے ہیں یعنی زیر ناف تک پہنچ جاتے ہیں۔اور فوق السرہ کے قایل تحت العنق یعنی گلے کے قریب باندھتے ہیں۔یہ دونوں صورتیں نہایت بدنما اور مکروہ محسوس ہوتی ہیں۔رہا ادب اور تعظیم وہ تو سینہ پر ہاتھ باندھنے سے ہوتا ہے۔ہاتھ نیچے تک لٹکا دینا تو ادب کے خلاف ہے۔نہیں بلکہ مکروہ معلوم ہوتا ہے۔تلاوت کے وقت سلام کے بعد ادب کے لیے عموماً ہاتھ سینہ پر ہی رکھے جاتے ہیں۔زیر ناف رکھتے آج تک ہم نے کسی کو نہیں دیکھا۔ رفع الیدین عند الرکوع اس مسئلہ میں واقعی آپ کے پاس کوئی دلیل نہیں۔محض تحکم اور سینہ زوری سے کام لیا گیا ہے۔میرا خیال تھا ۔کہ  مولانا عثمانی انصاف پسندی سے اس کا اقرار کریں گے۔صفائ سے فرمائیں گے کہ احناف واقعی اس مسئلہ میں تہی دست ہیں۔لیکن مولانا نے جو طریق گفتگو  اختیار فرمایا ہے اس سے انہوں نے اپنے محاسن میں کوئی اضافہ نہیں فرمایا۔اہل علم جانتے ہیں ۔صدیوں کے متنازعہ فیہ مسائل جن پر امت کے اعلام بار ہا طبع آزمائی فرما چکے ہوں ایسے بے سہارا تو نہیں ہو سکتے۔کوئی نہ کوئی صحیح یا غلط سہارا تو ضرور ہوگا۔آپ نے ان سے ایسے مشہور مسائل کا انتخاب فرمایا جن پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔مناسب تھا کے پرانے نوالے چبانے کی کوشش نہ کی جاتی۔بلکہ اس میں کوئ نئی تحقیق سامنے لاتے۔ورنہ ان مسائل تو فریقین ایک دوسرے کی انتہا کو خوب سمجھتے ہیں۔اب آپ نے طبع آزمائ کے لیے ان مسائل کو انتخاب فرمالیا تھا۔اس لیے مجھے بھی اس کے متعلق عرض کرنا ہوگا۔ میں نے عرض کیا ہے اس مسئلہ میں آپ فی الواقعہ تہی دست ہیں اور دلائل کے لحاظ سے کمزور ۔آپ نے اس وقت دو احادیث ذکر فرمائ ہیں۔پہلی حدیث کی نقل میں آپ نے اپنے پہلے بعض بزرگوں کی تقلید  میں بڑی جسارت سے کام لیا ہے ۔ورنہ اس حدیث میں رفع الیدین عند الرکوع کا بالکل ذکر ہی نہیں۔
Flag Counter