اکابر حنفیہ رحمہم اللہ محض سینہ زوری سے اس کا تذکرہ فرماتے ہیں اور آپ حضرات ان پر اعتماد فرما کر جرات فرما دیتے ہیں۔ ورنہ دیانت داری کا تقاضہ یہ ہے کہ اس ضمن میں اس کا تذکرہ ہی نہ کیا جائے۔ مگر جناب نے جو فرمانا تھا فرما دیا ہے۔ ٭٭٭٭ پہلی حدیث صحیح مسلم میں اس حدیث کو چار طرق سے روایت فرمایا ہے۔ تحویلات کو میں نے نظر انداز کر دیا ہے۔ ابو داؤد میں بھی معمولی اختلاف کے ساتھ قریباً یہی اسانید منقول ہیں۔ بعض میں تین مختصر ہے اور بعض میں مفصل۔ حدیث ایک ہے۔ اس کی روایت کے الفاظ واضح ہے: عن جابر بن سمرة كنا إذا صلينا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم قلنا السلام عليكم ورحمة الله وأشار بيده إلى الجانبين فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم علام تقومون بأيديكم كأنها أذناب خيل شمس إنما يكفي أحدكم أن يضع يده على فخذه ثم يسلم على أخيه من على بيمينه وشماله (صحيح مسلم ج1 ص181) یعنی جابر بن سمرہ فرماتے ہیں کہ جب ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز ادا کرتے تو ہم اسلام علیکم ورحمۃ اللہ کہتے اور دونوں طرف ہاتھوں سے اشارہ کرتے۔ آپ نے فرمایا تم یہ اشارے کیوں کرتے ہو جیسے تیز گھوڑے دم ہلاتے ہیں۔ تمہارے لئے یہ کافی ہے کہ ران پر ہاتھ رکھو۔ پھر اپنے بھائی کو سلام کہو۔ یہ تمام احادیث جابر بن سمرہ ہی سے مروی ہیں۔ تمام کا مضمون ایک ہی قسم کا ہے۔ بین طور پر معلوم ہوتا ہے واقعہ میں کوئی فرق نہیں۔ اجمال اور تفصیل کا فرق ہے۔ آپ ایسے اصلاح پسند حضرات کو ایسی سطحی بات نہیں فرمانی چاہئے۔ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: لا يحتج بهذا إلا من لا حظ له من العلم اس حدیث سے وہی استدلال کرے گا جسے علم سے کوئی حصہ نہیں ملا۔ |
Book Name | تحریکِ آزادی فکراور حضرت شاہ ولی اللہ کی تجدیدی مساعی |
Writer | شیخ الحدیث مولانا محمد اسمعٰیل صاحب سلفی |
Publisher | مکتبہ نذیریہ، چیچہ وطنی |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 236 |
Introduction | تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ کی تجدید مساعی کے نام سے مولانا اسماعیل سلفی رحمہ اللہ کے مختلف اوقات میں لکھے جانے والے مضامین کا مجموعہ ہے جس میں انہوں نے شاہ ولی اللہ کے مشن کی ترجمانی کرتے ہوئے مختلف مکاتب فکر کو قرآن وسنت کی طرف دعوت دینے کی کوشش کی ہے-شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے جس دور میں قرآن وسنت کی بالادستی کی فکر کو پیش کیا وہ دور بہت کٹھن دور تھا اور شاہ ولی اللہ کی تحریک کے مقابلے میں تمام مذاہب کے افراد نے رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش کی-تقلید جامد کے ماحول میں اجتہاد کے ماحول کو پیدا کرنا اور لوگوں کو مختلف ائمہ کے فہم کے علاوہ کسی بات کو قبول نہ کرنے کی فضا میں قرآن وسنت کی بالادستی کا علم بلند کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا-شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ تعالی نے اس دور میں اجتہاد،قرآن وسنت کی بالادستی،مختلف ائمہ کی فقہ کی ترویج اور لوگوں میں پائی جانے والی تقلید کی قلعی کو کھولتے ہوئے ان تمام چیزوں کی طرف واضح راہنمائی فرمائی-مصنف نے اپنی کتاب میں تحریک اہل حدیث کی تاریخ،اسباب،اور تحریک کے مشن پر روشنی ڈالتے ہوئے مختلف علماء کے فتاوی کو بھی بیان کیا ہے-تقلید کا مفہوم،اسباب اور تقلید کے وجود پر تاریخی اور شرعی اعتبار سے گفتگو کرتے ہوئے مختلف فقہی مسائل کو بیان کر قرآن وسنت کی کسوٹی پر پرکھ کر ان کی حقیقت کو بھی واضح کیا گیا ہے- |