Maktaba Wahhabi

169 - 236
متوركا ثم سلم (ج1 ص249) ’’آخری رکعت پر جب نماز ختم فرماتے بائیں پاؤں کو ایک طرف نکال کر ران پر بیٹھ جاتے اور سلام دیتے۔ اھ‘‘ ان واضح احادیث کی بناء پر اہل حدیث تورک کو ترجیح دیتے ہیں۔ لیکن تورک نہ کرنے کی وجہ سے نماز کو فاسد نہیں کہتے۔ ممکن ہے کراچی میں کسی اہل حدیث طالبعلم نے آپ سے یہ کہہ دیا ہو۔ جہاں تک علماء اور سنجیدہ حضرات کا تعلق ہے اس وجہ سے نماز فاسد نہیں کہتے۔ البتہ آپ نے جد حدیث سے استدلال فرمایا ہے وہ مجمل ہے اور ابو حمید کی روایات مفصّل اور واضح ہیں والمفصل يقضي على على المجمل قراءت فاتحۃ خلف الامام یقیناً اہل حدیث کے نزدیک راجح یہی ہے کہ سورۂ فاتحہ امام مقتدی سب پر فرض ہے۔ اس مسئلہ میں دیرینہ اختلاف ہے اس لئے فقہائے عراق نے اس پر کافی طبع آزمائی فرمائی ہے۔ لیکن یہ سارے مباحث سلبی قسم کے الزامات ہیں۔ ایجابی طور پر جو احادیث محل نزاع ہیں صریح ہیں، وہ صحیح نہیں۔ جو صحیح ہیں وہ صریح نہیں۔ یعنی مطلق قراءت کے متعلق ہیں ان میں فاتحہ کا ذکر نہیں۔ محترم مغفور سید انور شاہ صاحب نے ان سلبی اور الزامی رایوں کی کافی نشان دہی فرمائی ہے۔ لیکن اصل موضوع ہنوز تشنہ ہے۔ واقعی امام کے پیچھے فاتحہ نہ پڑھنے کے متعلق سب سے پختہ دلیل علمائے عراق کی تقلید ہے۔ آپ خود فرمائیں۔ آپ نے حضرت جابر کا اثر ذکر فرمایا۔ آپ کو کوئی مرفوع روایت نہیں ملی۔ امام طحاوی وغیرہ نے اس کا رفعاً ذکر فرمایا ہے لیکن کوئی طریقہ صحیح نہیں۔ غیظ وغضب کی کوئی بات نہیں۔ اظہار واقعہ کو آپ غیظ وغضب سمجھتے ہیں۔ آپ مختار ہیں۔ اہل حدیث نے آپ کو بعض کمزور مقامات کی طرف توجہ دلائی ہے رد یا قبول آپ کے اختیار میں ہے۔ غیظ وغضب کا کسی کو حق نہیں۔ ویسے اس مسئلہ میں رفع الیدین سے آپ کی پوزیشن کسی قدر اچھی ہے۔ اس موضوع پر طرفین نے بہت کچھ لکھا ہے اس لئے طول اور تفصیل کی ضرورت نہیں۔ آخری دو رکعتیں حضرات مولانا انصاف پسندی کے دعویٰ کے باوجود بعض مقامات پر عریاں ہو گئے ہیں۔ طبیعت پر ضبط نہیں فرما سکے۔ مولانا نے یہ تو قبول فرمالیا ہے کہ آخری دو رکعتوں میں خاموش رہنا حدیث سے
Flag Counter