کو حق مل جانے پر ہمیں بھی مسرت ہوگی۔ وجوب غسل زن و شوی کے تعلقات میں اگر کسی فتور کی وجہ سے مادہ منویہ کے نکلنے کی نوبت نہ آئے، تو جمہور کا مذہب ہے کہ غسل واجب ہے۔ احناف کا بھی یہی مذہب ہے۔ امام بخاری اور بعض آئمہ سلف کا مذہب ہے کہ اس صورت میں غسل واجب نہیں احتیاط اسی میں ہے کہ غسل کرے (بخاری)۔ دونوں مسلک کی تائید احادیث سے ہوتی ہے، چونکہ تاریخ معلوم نہیں۔ اس لیے نسخ کا دعویٰ تو صحیح نہیں جو مسلک راجح ہو اس پر عمل ہو سکتا ہے۔ اقتدار کے جواز یا عدم پر اس کا کوئی اثر نہیں۔ صحیح بخاری، فتح الباری، نیل الاوطار، فتاویٰ ابن تیمیہ میں تفصیل ملے گی۔ پاؤں پر مسح یہ مولانا رضوی کی آخری دلیل ہے کہ اہل حدیث پاؤں پر مسح جائز سمجھتے ہیں۔ فتاویٰ ابراھیمیہ کے حوالہ سے لکھا ہے۔ معلوم نہیں یہ مولوی ابراہیم کون سے بزرگ ہیں اور فتاویٰ ابراہیمیہ کیا بلا ہے۔ ہم صراحتاً یہ گزارش کرنا چاہتے ہیں کہ اہل حدیث کا یہ مسلک نہیں اور غالباً شیعوں کے سوا ائمہ سنت سے کسی کا بھی یہ مسلک نہیں۔ آخری گزارش ہم "رضوان" اور اس کے ادارہ کے محترم ارکان کو نظر انداز کر رہے تھے۔ خیال نہ تھا کہ ان بزرگوں کو خواہ مخواہ تکلیف دی جائے۔ یہ پہلی دفعہ جوابی گذارشات کی گئی ہیں۔ ممکن ہے کہ آئندہ بھی اسی غلطی کا اعادہ ہو۔ اس لیے مولانا رضوی اور ان کے رفقاء ایک بات سمجھ لیں کہ اہل حدیث علماء اور بزرگوں کے فقہی اقوال ہمارے ہاں اساس مذہب نہیں۔ نہ ہی ہم انہیں ائمہ اجتہاد کی طرح امام مانتے ہیں نہ ان کی تقلید ضروری سمجھتے ہیں۔ اس لیے یہ چیزیں بطور الزام نہ لکھی جائیں واجب التعمیل ہمارے لیے صرف کتاب و سنت اور آثار سلف کے سوا کچھ نہیں۔ آثار سلف میں اجماعی مسائل کی پابندی ہوگی۔ باقی مسائل میں جہاں سلف مختلف ہوں، ہم کسی کے پابند نہیں۔ مناسب ہوگا کہ لکھتے وقت یہ اصل پیش نظر رہے۔ اس سے بحث میں طول نہیں ہوگا اور شاید ہم ایک دوسرے کے کچھ قریب بھی ہو سکیں۔ |
Book Name | تحریکِ آزادی فکراور حضرت شاہ ولی اللہ کی تجدیدی مساعی |
Writer | شیخ الحدیث مولانا محمد اسمعٰیل صاحب سلفی |
Publisher | مکتبہ نذیریہ، چیچہ وطنی |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 236 |
Introduction | تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ کی تجدید مساعی کے نام سے مولانا اسماعیل سلفی رحمہ اللہ کے مختلف اوقات میں لکھے جانے والے مضامین کا مجموعہ ہے جس میں انہوں نے شاہ ولی اللہ کے مشن کی ترجمانی کرتے ہوئے مختلف مکاتب فکر کو قرآن وسنت کی طرف دعوت دینے کی کوشش کی ہے-شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے جس دور میں قرآن وسنت کی بالادستی کی فکر کو پیش کیا وہ دور بہت کٹھن دور تھا اور شاہ ولی اللہ کی تحریک کے مقابلے میں تمام مذاہب کے افراد نے رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش کی-تقلید جامد کے ماحول میں اجتہاد کے ماحول کو پیدا کرنا اور لوگوں کو مختلف ائمہ کے فہم کے علاوہ کسی بات کو قبول نہ کرنے کی فضا میں قرآن وسنت کی بالادستی کا علم بلند کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا-شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ تعالی نے اس دور میں اجتہاد،قرآن وسنت کی بالادستی،مختلف ائمہ کی فقہ کی ترویج اور لوگوں میں پائی جانے والی تقلید کی قلعی کو کھولتے ہوئے ان تمام چیزوں کی طرف واضح راہنمائی فرمائی-مصنف نے اپنی کتاب میں تحریک اہل حدیث کی تاریخ،اسباب،اور تحریک کے مشن پر روشنی ڈالتے ہوئے مختلف علماء کے فتاوی کو بھی بیان کیا ہے-تقلید کا مفہوم،اسباب اور تقلید کے وجود پر تاریخی اور شرعی اعتبار سے گفتگو کرتے ہوئے مختلف فقہی مسائل کو بیان کر قرآن وسنت کی کسوٹی پر پرکھ کر ان کی حقیقت کو بھی واضح کیا گیا ہے- |