Maktaba Wahhabi

208 - 236
مواقع خلاف میں رعایت کی شرط ہمارے اکثر مشائخ نے لگائی ہے۔ یہ نا مناسب ہے کیونکہ رعایت کسی کے نزدیک بھی ضروری نہیں۔ اگر وہ تمام کام اپنے مذہب کے مطابق کرے تو اس میں کونسی برائی ہے۔ زیادہ سے زیادہ ایک مستحب کا ترک ہوگا۔ اس سے اقتداء کے عدمِ جواز کی کونسی جوجہ ہوگی اسے سمجھو اور انصاف سے غور کرو۔ اھ بات بالکل صاف ہے لیکن شامی کے عند أكثر المشايخ اور على الأصح کا کیا کیا جائے؟ بہرکیف یہ محاذ بھی معقول معلوم نہیں ہوتا۔ ایک اور محاذ اقتداء بالمخالف کے متعلق متقدمین فقہاء کے چھ قسم کے خیالات منقول ہیں۔ جن کا تذکرہ مولانا عبد الحی رحمتہ اللہ علیہ نے حواشی ہدایہ میں فرمایا (ج1 ص126) اور مطلقا جواز کو راجح فرمایا ہے۔ ہمارے ملک میں شوافع کی جگہ اہل حدیث کو ملی ہے۔ گو ہمارے ہاں احناف اور شوافع کا احترام برابر ہے اس لئے یہاں بھی اقتداء بالمخالف کا اثر اہل حدیث پر پڑتا ہے بلکہ ہمارے بزرگ کچھ زیادہ ہی تیز ہوجائے ہیں۔ بریلوی حضرات تو ’’لا مساس‘‘ کے قائل ہیں وہ کسی موحد کی اقتداء نہیں فرماتے اہل حدیث ہو یا حنفی۔ ان کے ہاں مذہب چند رسوم اور نعروں کا نام ہے اور بس۔ پھر ان کا انداز گفتگو علم واستدلال پر مبنی نہیں بلکہ محض جذباتی ہے۔ ہمارے دیوبندی حضرات بعض ان مسائل کی آڑ لیتے ہیں جن کی رعایت کی امید شوافع سے کی گئی ہے لیکن وہ اختلافات اب کچھ موزوں نہیں معلوم ہوتے۔ اس لئے ایک نیا محاذ کھولا گیا۔ ہمارے یہ دوست فرماتے ہیں کہ اہل حدیث کی اقتداء اس لئے درست نہیں کہ یہ استنجاء میں ڈھیلا استعمال نہیں کرتے ان کی طہارت درست نہیں۔ یہ عذر بے حد کمزور بھی ہے اور غلط بھی۔ یہ تو معلوم ہے کہ طہارت کے بغیر نماز کو کوئی بھی درست نہیں سمجھتا۔ طہارت اہل حدیث کے نزدیک بھی اتنی ہی ضروری ہے جس قدر  احناف کے نزدیک فرق صرف طہارت کے طریقہ میں ہے۔ صرف پانی سے ہوگی یا صرف مٹی سے یا پانی اور مٹی دونوں سے۔ تمام ائمہ متفق ہیں کہ طہارت تینوں طرح ہوجاتی ہے۔ اگر کوئی مٹی اور پانی دونوں استعمال کرے تو بہتر ہے۔ مطلق طہارت کے سوا ان طریقوں
Flag Counter