Maktaba Wahhabi

225 - 236
تذکرہ کئی اوراق میں پھیلا ہوا ہے۔ اس مقام پر امام محمد بن الحسن رحمہ اللہ کا قول ذکر فرمایا: قال محمد بن الحسن رحمه الله إن تكلم أصحاب الحديث يوماً فبلسان الشافعي (ج1 ص50) اصحاب الحدیث اگر گفتگو کریں تو وہ امام شافعی ہی کی زبان سے ہوگی یعنی امام شافعی کی کتابیں ان کی رہنمائی کریں گی۔ حسن بن محمد زعفرانی فرماتے ہیں: كان أصحاب الحديث رقوداً فأيقظهم الشافعي (ج1 ص50) اہل حدیث سو رہے تھے۔ شافعی رحمہ اللہ نے ان کو جگا دیا۔ امام احمد کے ایک توصیفی ارشاد میں فرمایا: فهذا قول إمام أصحاب الحديث وأهله (ج1 ص50) یہ اہل حدیث کے امام کا قول ہے۔ ان ارشادات سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل حدیث امام احمد، امام شافعی اور امام محمد سے پہلے موجود تھے۔ یہ ائمہ بھی اہل حدیث تھے۔ ان کے علوم سے اہل حدیث کو فائدہ پہنچا۔ ایک مقام پر فرمایا: عام علماء اور فقہاء خراسان کی زبان میں امام شافعی کے شاگردوں کا لقب اہل حدیث ہوا۔ تقلید اور جمود کا دور تقلید اور جمود کی ان تیرہ صدیوں میں کیا کیفیت رہی؟ اس کے متعلق صحیح اور قطعی رائے اور اس کے مد وجزر کا جائزہ لینے کے لئے گہرے اور عمیق مطالعے کی ضرورت ہے۔ ائمہ کی تصریحات اور مذہبی فرقوں کے عروج وزوال کی تاریخ اور مختلف فرق اور ملل ونحل کی کتابوں کے سرسری جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ زمانۂ خیر میں تمام علماء مجتہد نہیں تھے۔ لیکن ائمہ اجتہاد کی کافی تعداد پائی جاتی تھی اور ایسے اہل علم جو درجہ اجتہاد کو تو نہیں پہنچے لیکن مسائل اور دلائل پر بقدر ضرورت ان کی نظر تھی اور ان کی تعداد بھی کافی تھی۔ احادیث کے حفظ کے ساتھ انہیں اللہ تعالیٰ نے تفقہ بھی عطا فرمایا تھا۔ عوام جو دنیوی مشاغل کی وجہ سے علمی مشغلہ نہ رکھ سکے بڑی تعداد میں موجود تھے ان میں سب بوقت ضرورت اپنے بہتر علماء کی طرف توجہ فرماتے۔ ایک عام آدمی کے لئے یہ تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ وہ مسئلہ دریافت کرنے کے لئے پہلے مجتہد کی تلاش کرے وہ بیچارا اتنا عالم ہوتا تو اسے دوسرے سے پوچھنے کی ضرورت ہی کیوں محسوس ہوتی۔
Flag Counter