Maktaba Wahhabi

246 - 236
اگر عامی آدمی شغل کی وجہ سے علم نہ حاصل کر سکے تو اسے علماء اہل حدیث کی طرف جن کے علم و دیانت کی شہرت ہو رجوع کرے کہ مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کی طرف راہنمائی کی جائے۔ اگر آدمی علم کا شوقین ہو تو اسے سب سے پہلے قرآن و حدیث کی طرف رجوع کرنا چاہئے۔ ظواہر نصوص میں کسی مجتہد کی تقلید کی ضرورت نہیں اور یہ بالکل وہی انداز ہے جس کا تذکرہ حضرت شاہ ولی اللہ  رحمہ اللہ ، شاہ عبدالعزیز  رحمہ اللہ ، ان کے رفقاء اور تلامذہ کرتے رہے۔ اس نے تیرھویں صدی ہجری میں سکھوں اور انگریزوں کے اتحاد اور کم فہم علمائے ہند کی مخالفت کی وجہ سے سیاسی اسباب و دواعی کے ماتحت تحریک جہاد اور ہندوستان کی آزادی کے لیے ابتدائی کوشش کی صورت اختیار کی۔ شاہ عبدالعزیز رحمہ اللہ کی نگرانی میں سیّد احمد کی قیادت اور شاہ اسمٰعیل شہید  رحمہ اللہ ، مولانا عبدالحی بڈھانوی وغیرہ کی رہنمائی میں جہاد کا پروگرام بنانا پڑا۔ کلکتہ کے اطراف میں انگریزوں اور پنجاب میں سکھوں کے اثر کی وجہ سے ان لوگوں نے اپنی حریت پسند مساعی کے لیے صوبہ سرحد کا انتخاب کیا۔ ان کا خیال تھا کہ یہاں کی مسلمان اکثریت ان کے ساتھ پورا تعاون کرے گی۔ تحریکِ حریّت کے مقاصد ان کے سامنے اس وقت دو مقصد تھے، پورے ہندوستان کی انگریزوں اور سکھوں سے آزادی اور اس ملک میں ایک ایسی حکومت کی تاسیس جس کی بنیاد قرآن اور سنّت پر ہو۔ اس ضمن میں وہ یہ بھی چاہتے تھے کہ مغل دربار کی لاعلمی کی وجہ سے جو بدعات اور مشرکانہ رسوم اور تشیع کے مہلک اثرات جو اس ملک کی گھریلو زندگی کا جزو بن چکے ہیں انہیں زائل کیا جائے اور سلفی انداز کی سادہ حکومت اس ملک میں قائم کی جائے۔ اس کے لیے ان کے سامنے دو پروگرام تھے۔ وعظ و تبلیغ، درس و تدریس اور نشر و اشاعت کے ذریعے کتاب و سنّت کی اشاعت اور جہاد کے ذریعے انگریزوں اور سکھوں کے ظلم سے نجات۔ جہاد کی تحریک زیر زمین چلتی رہی۔ اس کا خاتمہ قریباً 1947ء میں تقسیم کے بعد ہوا جبکہ پاکستان کے نام سے ایک اسلامی حکومت قائم ہو گئی۔ اس کی تفصیل ایک مستقل موضوع ہے جو مستقل وقت اور فرصت کا محتاج ہے۔ تبلیغ وعظ کی نشر و اشاعت کیلئے
Flag Counter