Maktaba Wahhabi

141 - 154
بدل دیا حالانکہ کسی بھی نسخہ میں یہ عنوان نہ تھا۔ (دیکھئے: ابوداوٗد مع عون ص۳۰۵ ج۱)۔ اہل علم جانتے ہیں کہ محدث عظیم آبادی رحمہ اللہ سنن ابی داوٗد کے متن کی جب عون المعبود میں شرح کرتے ہیں تو اختلاف نسخہ کا ذکر کرتے ہیں۔ اگر کسی نسخہ میں اس عنوان کا باب بھی ہوتا جو دیوبندیوں کے شیخ الہند نے قائم کیا ہے تو صاحب عون المعبود اس کا ذکر کرتے، مگر محدث عظیم آبادی اس پر خاموشی سے گزر گئے ہیں جو اس بات کا روشن پہلو ہے کہ کسی بھی نسخہ میں اس عنوان کا باب نہ تھا۔ مگر شیخ الہند اس کا ذکر کرتے ہیں۔ اناﷲ و انا الیہ راجعون، یہ سب حنفیت کی حمایت میں کیا جا رہا ہے کہ ان کے نزدیک قراۃ فاتحہ مکروہ ہے۔ (تحفہ حنفیہ ص۳۹ تا ۴۱) سنن ابن ماجہ میں تحریف سنن ابن ماجہ کو بعض نے صحاح ستہ میں شمار کیا ہے۔ درسی اور متداول کتاب ہے، اس میں صحیح و ضعیف بلکہ موضوع روایات بھی ہیں اس میں سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت ہے: من کان لہ امام فقرأۃ الامام لہ قرأۃ جس کا (نماز میں) امام ہے تو امام کی قراۃ اسی کی قرات ہے۔ (ابن ماجہ ص۶۱) حنفیہ کا اس روایت سے ترک قراۃ خلف الامام پر استدلال ہے۔ (تدقیق الکلام ص۱۹۵ ج۱) علماء اہل حدیث کی طرف سے یہ جواب دیا گیا کہ اس کی سند میں جابر الجعفی راوی کذاب ہے۔ (تحقیق الکلام ص۱۳۴ ج۲)۔ حنفیہ نے حق بات کو تسلیم کرنے کی بجائے سنن ابن ماجہ میں ہی تحریف کر دی۔ اصل سند اس طرح تھی:
Flag Counter