Maktaba Wahhabi

41 - 154
کوئی آیت یا حدیث کان میں پڑتی ہے ان کے قلب میں انشراح انبساط نہیں رہتا بلکہ اول استنکار قلب میں پیدا ہوتا ہے پھر تاویل کی فکر ہوتی ہے خواہ کتنی ہی بعید ہو اور خواہ دوسری دلیل قوی اس کے معارض ہو بلکہ مجتہد کی دلیل اس مسئلہ میں بجز قیاس کے کچھ بھی نہ ہو بلکہ خود اپنے دل میں اس تاویل کی وقت نہ ہو مگر نصرف مذہب کے لئے تاویل ضروری سمجھتے ہیں۔ دل یہ نہیں مانتا کہ قول مجتہد کو چھوڑ کر حدیث صحیح صریح پر عمل کر لیں۔ (تذکرۃ الرشید:۱/۱۳۱) ایک مقام پر لکھتے ہیں: ’’بعض مقلدین نے اپنے ائمہ کو معصوم عن الخطاء و مصیب وجوبا و مفروض الاطاعت تصور کر کے عزم بالجزم کیا، کہ خواہ کیسی ہی حدیث صحیح مخالف قول امام کے ہو اور مستند قول امام کا بجز قیاس کے امر دیگر نہ ہو پھ ربھی بہت سی علل و خلل حدیث میں پیدا کر کے یا اس کی تاویل بعید کر کے حدیث کو ردّ کریں گے اور قول امام کو نہ چھوڑیں گے۔ ایسی تقلید حرام اور مقصداق قولہ تعالیٰ: اتخذوا احبارھم و رھبانھم اربابا الایۃ اور خلاف وصیت ائمہ مرحومین کے ہے۔ (امداد الفتاوی ۵/۲۹۷) وضع احادیث کے اسباب وضع احادیث کے متعدد اسباب ہیں جن پر محدثین کرام نے مفصل گفتگو کی ہے۔ ان میں سے ایک سبب تقلید بھی ہے۔ مقلدین نے قرآن و حدیث کی بجائے شخصی اقوال کو دین و مذہب قرار دیا تو ان کے اقوال کی تقویت و حمایت کی غرض سے احادیث کو وضع کیا، امام قرطبی رحمہ اللہ شرح مسلم میں فرماتے ہیں:
Flag Counter