Maktaba Wahhabi

24 - 120
بہت اچھی طرح کی ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ ۱۲ ربیع الاول کو خوشیاں منانے والے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کی خوشیاں نہیں مناتے بلکہ آپ کی وفات پر خوشیاں مناتے ہیں، کیونکہ تمام اہل سنت مورخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ۱۲ ربیع الاول کونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی تھی۔ برادارنِ اسلام! ذرا غور فرمایئے ، ہم کس قدر شقی القلب ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے دن خوشیاں مناتے ، جلوس نکالتے اور ناچتے گاتے ہیں ۔ کیا اسی کا نام محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے؟ ﷲیہ کم علمی کی انتہا ء نہیں تو پھر اور کیا ہے؟ یہ جہالت اور نادانی کی انتہا نہیں تو اور کیا ہے؟ کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے دن عید منایا کرتے ہیں ۔ برادرانِ اسلام! ہوش و خر د کی دنیا میں آیئے اور تحقیق کیجیئے کہ کس دشمن نے آپ کو اس غلط راہ پر لگایا؟ وہ کون ظالم تھا جس نے آپ کو الٹا سبق پڑھایا؟ وہ لوگ کون ہیں جو آپ کو غلط راستے پر لے جانا چاہتے ہیں ؟ یہ لوگ یہ مدعیان ِ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کن کے گماشتے اور وظیفہ خوار ہیں کبھی آپ نے غور فرمایا؟ اگر نہیں غور کیا تو آئیے اور تحقیق کی دنیا میں ہمارے شانہ بشانہ چلیئے ہم ان شآء اﷲ آپ کو صحیح راستہ دکھائیں گے۔ چنانچہ ملاحظہ فرمائیے تاریخ ابتدائے بدعت ِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم جسے میں مولانا کرم الدین صاحب سلفی کے کتابچہ ’’ولادتِ با سعادت اور ربیع الاول‘‘ سے نقل کر رہا ہوں ۔ مجالس میلاد کی ایجاد کی تاریخ: میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مجالس و محافل اور اس کا جشن سب سے پہلے ساتویں صدی ہجری کے شروع تقریباََ ۶۰۴ میں منایا گیا ۔ [1] اس کا اول موجد ابوسعید کوکبری بن ابی الحسن علی بن بکتگین بن محمد المقلب الملک المعظم مظفر الدین صاحبِ اربل (موصل) المتوفی ۱۸ رمضان ۶۳۰ ؁ھ ہے۔ یہ بادشاہ ان
Flag Counter