Maktaba Wahhabi

78 - 120
میں کہتا ہوں کہ اگر تقاضائے حدیث یہی ہے تو صاحبِ حدیث نے ایسا عمل کیوں پیش نہیں کیا۔ حدیث شریف کے معنٰی یہ ہیں کہ زبان سے اور ظاہری عمل سے جو کچھ کہا اور کیا جائے وہ عنداﷲماجور نہیں بلکہ ارادۂ قلب بوقتِ عمل باعث ِ اجروثواب ہے نہ کہ قول زبان ، پس اس حدیث سے بھی اس امر کی تردید ثابت ہے۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ زبان سے نیت کرنا بدعت ہے۔ (۴۱) ندائے غیر اﷲ: غیر اﷲکو پکارنا آج کل فیشن بنتا جا رہا ہے کسی کی زبان پر یا غوث، یا پیردستگیر کی ندا ہے تو کوئی یا علی یا رسول اﷲیا حسین وغیرہ کے نعرہ لگا رہا ہے۔ دکانوں اور مکانوں میں کوئی ان نعروں کے اسٹیکر چپکائے بیٹھا ہے تو کوئی دیواروں پر ان شرکیہ کلمات کے طغرے آویزاں کیئے ہوئے ہے یہ سب کرنے والے وہ لوگ ہیں جو اپنے آپ کو سنی یا اہل سنت کہتے ہیں ۔ حالانکہ اس قسم کے نعرے اہل شرک و اہل بدعت ہی لگاتے ہیں ۔ مدد کے لیئے اس طرح نداد ینا یہ صرف اﷲتعالیٰ اکیلے کے لیئے جائز ہے کسی مخلوق کو اس طرح ندادینا اور اس سے مدد طلب کرنا صریح شرک ہے۔ میں پوچھتا ہوں کہ کیا اس قسم کے نعروں کے اسٹیکر لگانا، ایسے نعروں کو لکھنا، قرآن و حدیث سے ثابت ہے؟ اگر ثابت ہے تو دلیل پیش کریں اور اگر نہیں ہے تو پھر اس بدعت سے باز آجائیں ۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بڑھ کر آپ لوگ رسولُ اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرماں بردار، متبع ، خیر خواہ اور چاہنے والے نہیں ہیں انہوں نے بھی نہ توکبھی اس قسم کے نعرے لگائے اور نہ ہی دیواروں پر : (اَلصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اﷲِ) لکھا، نہ مکانوں پر لکھا اور نہ ہی اپنی کاروباری جگہوں پر اور نہ ہی کھیت کھلیانوں پر لکھا پھر ہمارے لیئے یہ امر کس نے ایجاد کرلیا؟ جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو فوت ہوچکے ہیں اور ایسے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آوازیں لگانا نری جہالت اور دیوانگی ہے۔ صحابۂ کرام کا کردار ملاحظہ فرمائیے کہ
Flag Counter