Maktaba Wahhabi

106 - 108
جس شخص کے ذمے یہ بات لگائی گئی تھی، اس نے کسی اور شخص کے ذریعے سے مسلم بن عقیل کا یہ پیغام حضرت حسین رضی اللہ عنہ تک پہنچا دیا۔راستے میں ملنے والے بعض حضرات نے بھی آپ کو واپس ہوجانے کا مشورہ دیا اور ایک روایت میں ہے کہ قادسیہ سے تین میل پہلے آپ کو حر بن یزید تمیمی نامی شخص ملا(خیال رہے قادسیہ سے کوفے کا فاصلہ تقریباً پچاس میل ہے)اس نے آپ کے سفر کی بابت پوچھا کہ آپ کہاں جارہے ہیں؟ آپ کی وضاحت پراس نے کہا، آپ وہاں نہ جائیں بلکہ لوٹ جائیں،میں وہیں(کوفہ)سے آرہا ہوں مجھے آپ کےلیے وہاں کسی بھلائی کی امید نہیں ہے۔ یہ صورت حال دیکھ کر اور جان کر حضر ت حسین رضی اللہ عنہ نے تو واپسی کا ارادہ کرلیا، لیکن آپ کے قافلے میں شریک مسلم بن عقیل کے بھائی بولے، اللہ کی قسم! ہم تو واپس نہیں جائیں گے،بلکہ اپنے بھائی کا انتقام لیں گے یا خود بھی قتل ہوجائیں گے۔حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے فرمایا، پھر تمہارے بعد میری زندگی بھی بے مزہ ہے اور سفر جاری رکھا۔تاہم آپ نے ان لوگوں کو،جو راستے میں آپ کا مقصد سفر معلوم کرکے آپ کے ساتھ ہولئے تھے، جانے کی رخصت دے دی، چنانچہ ایسے سب لوگ قافلے سے علیحدہ ہوگئے اور آپ کے ساتھ صرف وہی لوگ رہ گئے جو ابتدائے سفر یعنی مکے ہی سے آپ کے ساتھ آئے تھے۔ چوتھامرحلہ…… کربلا میں صلح کی کوشش اور اس میں ناکامی: روایات میں ہے کہ جب واپسی کی بجائے، آگے ہی جانے کا فیصلہ کرلیا گیا،تو تھوڑے ہی فاصلے پر ابن زیاد کی طرف سے روانہ کردہ لشکر وہاں آگیا، جسے دیکھ کر حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے اپنا رُخ کربلا(یعنی شام)کی طرف کرلیا۔ابن زیاد کے اس لشکر کے قائد عمر بن سعد بن ابی وقاص تھے جو ایک صحابی کے فرزند اور فرزند رسول حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے قدر شناس تھے، وہ اس معاملے کو مفاہمانہ انداز میں سلجھانا چاہتے تھے، لیکن قضاء وقدر کے فیصلے کچھ اور ہی تھے اس لیے ان کی تدبیر اور مساعیٔ صلح ناکام رہیں اور ہمارے خیال میں اس کی بڑی وجہیں دو باتیں بنیں۔ ایک ابن زیاد کا سخت گیر حاکمانہ رویہ۔
Flag Counter