Maktaba Wahhabi

108 - 108
سے کٹ کر ایک جداگانہ راستہ اختیار کرنے کا جو الزام ان پر عائد ہوسکتا تھا، اس سے وہ بچ گے۔رضی اللّٰه عنہ وارضاہ۔ اس رجوع اور مذکورہ مطالبے کے بعد ان سے تعرض کرنے اور ان کے ساتھ سخت رویہ اختیار کرنے کا کوئی جواز نہیں تھا، اس لیے حضرت عمر بن سعد نے(ان کی بات کو تسلیم کرکے)یہ مطالبے ابن زیاد کو لکھ کر بھیج دیئے تاکہ وہ ان کی منظوری دے دے۔لیکن اس نے سخت رویہ اختیار کیا اور کہا کہ وہ پہلے یہاں میری بیعت کریں، تب میں انہیں یزید کے پاس جانے کی اجازت دوں گا۔حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی طبع غیور نے اس بات کو پسند نہیں کیا اور فرمایا: لا یکون ذٰلک ابداً، ایسا کبھی نہیں ہوسکتا۔ اس کے نتیجے میں وہ جنگ شروع ہوگئی جس میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ اپنے بچوں اور اعوان وانصار سمیت مظلومانہ طور پر قتل کردیئے گئے اور یوں یہ سب حضرات مظلومیت کی موت سے ہم کنار ہوکر شہادت کے رتبہ ٔ بلند پر فائز ہوگئے۔رحمہم اللّٰه ورضی عنہم۔ سانحۂ کربلا کی یہ وہ ضروری تفصیل ہے جو تاریخ کی ساری کتابوں میں موجود ہے۔ہم نے غیر ضرور ی اور غیر مستند تفصیلات سے بچتےہوئے واقعے کی اصل حقیقت بیان کردی ہے۔اس سے حسب ذیل باتیں واضح طور پر سامنے آتی ہیں۔ خلاصۂ ماسبق یا سانحۂ کربلا کےاہم اسباب: اس کا پہلا سبب،خاندانی رقابت وآویزش تھی جو باپوں سے اولاد میں منتقل ہوئی۔حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے اپنی صلح جُو طبیعت کی وجہ سے اس کوبڑھایا نہیں بلکہ اپنے عمل سے اس کو ختم فرما دیا۔جب کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے اس کے برعکس دوسرا راستہ اختیار فرمایاجو بالآخر ان کی مظلومانہ شہادت پر منتج ہوا۔ ۲۔دوسرا سبب حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا اپنے کو خلافت کا اہل تر سمجھنا تھا، لیکن حالات نے مساعدت نہیں کی۔یوں وہ ظالموں کی مشق ستم کانشانہ بن گئے۔ ۳۔اہل کوفہ کے خطوط، جنہوں نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے دل میں امید کے دیئے روشن کردیئے، حالانکہ اہل کوفہ کاتاریخی کردار واضح تھا، اس کی رُو سے وہ بے وفا اور
Flag Counter