Maktaba Wahhabi

71 - 108
کے صاحب بصیرت علماء کے طرز عمل وفکر میں تامل کرے گا اس پر اس مسلک کی صحت و صداقت بالکل واضح ہوجائے گی۔ حضرت حسین کا عزم عراق: اسی لیے جب حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے عراق جانے کا رادہ کیا تو اکابر اہل علم وتقویٰ مثلاً عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ،عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ،ابوبکر بن عبدالرحمن بن حارث رضی اللہ عنہ نے ان سے بہ منت کہا کہ وہاں نہ جائیں کیونکہ وہ سمجھتے تھے آپ ضرور شہید ہوجائیں گے۔حتی کہ روانگی کے وقت بعضوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ استودعک اللّٰه من قتیل’’اے شہید! ہم تجھے اللہ کو سونپتے ہیں۔‘‘ اور بعضوں نے کہا: ((لو الشناعۃ لأمسکتک ومنعتک من الخروج)) ’’اگر بے ادبی نہ ہوتی تو ہم آپ کو زبردستی پکڑ لیتے اور ہرگز جانے نہ دیتے۔‘‘ اس مشورے سے ان لوگوں کےمدنظر صرف آپ کی خیرخواہی اور مسلمانوں کی مصلحت تھی مگر حضرت حسین رضی اللہ عنہ اپنے ارادے پر قائم رہے۔آدمی کی رائے کبھی درست ہوتی ہے اور کبھی غلط ہوجاتی ہے۔بعد کے واقعات نے ثابت کردیا کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو عراق جانے سے روکنے والوں ہی کی رائے درست تھی کیونکہ آپ کے جانے سے ہرگز کوئی دینی یا دنیاوی مصلحت حاصل نہ ہوئی بلکہ یہ مضرت پیدا ہوئی کہ سرکشوں اور ظالموں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جگر گوشے پر قابو مل گیا اور وہ مظلوم شہید کردیئے گئے۔آپ کے جانے اور پھر قتل سے جتنے مفاسد پیدا ہوئے وہ ہرگز واقع نہ ہوتے اگر آپ اپنی جگہ پر بیٹھے رہتے کیونکہ جس خیر وصلاح کے قیام اور شروفساد کے دفعیہ کےلیے آپ اٹھے تھے اس میں سے کچھ بھی حاصل نہ ہوا۔برعکس اس کے شر کو غلبہ اور عروج حاصل ہوگیا۔خیرو وصلاح میں کمی آگئی اور بہت بڑے دائمی فتنے کا دروازہ کھل گیا جس طرح حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت سے فتنے پھیلے اسی طرح حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت نے بھی فتنوں کے سیلاب بہادیئے۔
Flag Counter